کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 227
کر کے بےساختہ پکار اٹھتا ہے۔ ﴿وَسُبْحٰنَ اللّٰهِ وَمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ﴾ [1] یہ راستہ حجت وبرہان اور بصیرت و وجدان سے معمورو لبریز ہے۔ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالی نے اعلان کروایا:"فرمایا تم اعلان کردو میری راہ یہ ہے کہ علم و یقین کی بنا پر خدا پرستی کی دعوت دیتا ہوں اور کہتا ہوں میری راہ شرک کرنے والوں کی راہ نہیں ہے، برخلاف اس کے تمہارا حال یہ ہے کہ شرک کے داعی ہو اور بنیاد دعوت علم و یقین نہیں ہے، جہل و ظن ہے، اب فیصلہ اللہ کے ہاتھ ہے اور ایسے ہی فیسلے پچھلی قوموں کے لیے بھی ہوچکے ہیں ۔ یہاں بصیرۃ کا لفظ فرمایا، بصیرۃ کے معنی علم، معرفت اور یقین کے ہیں اور اسی لیے دلیل و حجت پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ پس قرآن کہتا ہے جس راہ کی طرف بلاتا ہوں اس کے لیے میرے سامنے علم و یقین ہے، پھر کیا تمہارے پاس بھی علم و یقین میں سے کچھ ہے ؟ اگر نہیں ہے تو اتباع یقین و عرفان کا کرنا چاہیے یا جہل و کوری اور شک و گمان کا ؟ ۔ ۔ ۔" [2] سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما نے فرمایا :"محمد مصطفٰے (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے اصحاب احسن طریق اور افضل ہدایت پر ہیں ، یہ علم کے معدن، ایمان کے خزانے، رحمٰن کے لشکر ہیں ۔" سیدناعبد اللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ طریقہ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اگر حاصل کرنا ہو تو گزرے ہوئے لوگوں کا طریقہ حاصل کرو اس لئے کہ وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب ہیں جن کے دل امت میں سب سے زیادہ پاک ہیں ۔ ان کے علوم سب سے زیادہ عمیق ہیں ۔ اور ان میں تکلف اور بناوٹ سب سے کم ۔ یہ وہ ہستیاں ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اشاعت دین محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے برگزیدہ کرلیا ہے۔" دین کی طرف دعوت دینے کے لیے بصیرت کے ساتھ ساتھ حکمت ، اچھی نصیحت اور جدال بطریق احسن بھی ضروری ہے چنانچہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:﴿ اُدْعُ اِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ بالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ﴾ (النحل : 125)( اپنے رب کے راستے کی
[1] سورةیوسف :108۔ [2] مولانا ابو الکلام آزاد: تفسیر ترجمان القرآن۔