کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 225
ستر عورت اور دوسرے احکامات کے سلسلے میں شریعت کی خلاف ورزی ہوتی ہو۔ یہ سب کے سب صریح شرکیہ افعال ہیں ۔ ایسے معاملات جن کا تعلق ایسے رسوم اور ایسی تقریبات سے ہو جو خلاف اسلام ہوں اور جن کو اللہ کے سوا کسی اور نے رواج دیا ہو اور جن پر عمل پیرا ہونا لوگ ضروری سمجھتے ہوں ، اس طرح جس طرح فرمودۂ خدا و رسول ہو تو ایسے افعال و رسوم محض گناہ ہی نہیں رہتے بلکہ یہ شرک کا درجہ اختیار کرلیتے ہیں کیونکہ ان کی پیروی سے انسان غیر اللہ کے دین اور نظام کا اتباع کرتا ہے جو خلاف نظام کا اتباع کرتا ہے جو خلاف نظام اسلامی ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ امر نہایت ہی اہم ، خطرناک اور شرک ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : وما یومن ۔۔۔۔۔ مشرکون (١٢ : ١٠٦) “ ان میں سے اکثر اللہ کو مانتے ہیں مگر اس طرح کہ وہ اس کے ساتھ دوسروں کو شریک کرتے ہیں ”۔ لہٰذا اس آیت کا اطلاق ان لوگوں پر بھی ہوتا ہے جو جزیرۃ العرب میں ایمان لانے کے بعد بھی شرک کرتے تھے اور آپ کے بعد آنے والے لوگوں پر بھی ہوتا ہے جو ایمان تو لاتے ہیں مگر پھر بھی کسی نہ کسی طرح شرک کرتے ہیں ۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ کیا چیز ہے کہ ہدایت سے اعراض کرنے والے یہ لوگ اس سے امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہیں اور آیات قرآنیہ کے بعد آیات کونیہ سے بھی وہ منہ موڑ رہے ہیں ۔ آخر وہ کیا سہارا ہے ؟ کیا یہ خدا کا خوف نہیں کرتے۔" [1] ﴿اَفَاَمِنُوْٓا اَنْ تَاْتِيَهُمْ غَاشِيَةٌ مِّنْ عَذَابِ اللّٰهِ اَوْ تَاْتِيَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً وَّهُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ ﴾ "٧٧۔ اس سے مقصود لوگوں کو چونکانا ہے کہ فرصت زندگی کو دراز سمجھ کر اور حال کے امن کو دائم خیال کر کے فکر مآل کو کسی آنے والے وقت پر نہ ٹالو، کسی انسان کے پاس بھی اس امر کے لیے کوئی ضمانت نہیں ہے کہ اس کی مہلت حیات فلاں وقت تک یقینا باقی رہے گی، کوئی نہیں جانتا کہ کب اچانک اس کی گرفتاری ہوجاتی ہے اور کہاں سے کس حال میں
[1] سید قطب شہید: تفسیرفی ظلال القرآن۔