کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 224
امام احمد نے ابو سعید ابن فضالہ سے روایت کی ہے ۔ انہوں نے کہا میں نے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کہتے سنا " جب اللہ اولین اور آخرین کو اس دن جمع کرے گا جس میں کوئی شک نہیں ہے تو ایک پکارنے والا پکارے گا " جس شخص نے ایسے کام میں اللہ کا کوئی شریک ٹھہرایا جو اللہ کا مخصوص تھا ، تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے عمل کا اجر اس شریک سے طلب کرے ، کیونکہ اللہ شریکوں کی شراکت کا محتاج نہیں ہے ۔" امام احمد نے اپنی سند سے محمود ابن بسید سے یہ روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا “ میں تمہیں اس چھوٹے شرک سے ڈراتا ہوں جس کے بارے مجھے تشویش ہے ”۔ صحابہ نے کہا “ رسول خدا ، وہ چھوٹی شرک کیا ہے ؟ ” تو آپ نے فرمایا “ وہ خواہیں ہیں ”۔ جب قیامت میں لوگ اپنے اپنے اعمال لے کر آئیں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے ، جاؤ ان لوگوں کے پاس جن کو تم دنیا میں کچھ سمجھتے تھے اور دیکھو ان کے پاس ہے کچھ تمہیں جزاء کے طور پر دینے کے لئے۔” غرض ایمان کے باوجود یہ شرک خفی کی اقسام ہیں ۔ ایک مومن کو چاہیے کہ وہ ان کے بارے میں چوکنا رہے اور ان سے بچنے کی سعی کرے تاکہ اس کا ایمان خالص ہوجائے۔" [1] سید قطب شہید کی رائے میں درج ذیل اعما ل شرکیہ ہیں (اور یہ ایک مسلمان کے لیے تباہ کن ہیں ان سے احتراز از بس ضروری ہے): " شرک خفی کے علاوہ بعض واضح اعمال شرکیہ ہیں اور ان میں سے ایک یہ طرز عمل ہے کہ انسان اللہ کے سوا کسی اور کے دین اور نظام کی پیروی کرے ، زندگی کے معاملات میں سے کسی بھی معاملے میں ۔ مثلاً وہ ایسے قانون کے مطابق فیصلے کرائے یا کرے جو شریعت کے خلاف ہو ، یہ فعل ایک صریح اور منصوص اور واضح شرک ہے جس میں کوئی اختلاف رائے نہیں ہے مثلاً ایسے عرس اور میلے مقرر کرنا جو اللہ نے مقرر کیے ہوئے نہ ہوں یا دوسرے ایسے رسم و رواج جن کا کوئی ثبوت شریعت سے نہ ہو۔ یا ایسے لباس جن میں
[1] سید قطب شہید: تفسیرفی ظلال القرآن۔