کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 223
سوا کچھ اور شخصیات اور اداروں کو منبع ہدایت اور ذریعہ قانون اور شریعت قرار دیتے ہیں ۔ [1] یہ اللہ کے سوا اوروں سے امیدیں باندھتے ہیں ،[2] یہ ایسی قربانیاں اور خیراتیں کرتے ہیں جن کی تہہ میں رضائے الٰہی کے علاوہ کچھ اور شخصیات کی رضا بھی موجود و ملحوظ ہوتی ہے۔ یہ اللہ کے سوا اوروں سے نفع حاصل کرنے یا نقصان کے رکوانے کے عمل بےسود میں جدو جہد کرتے ہیں یا اللہ کی بندگی میں محض اللہ کی رضا کے سوا اوروں کی رضا کو بھی ملحوظ رکھتے ہیں ۔ یہی شرک خفی ہے اور اسی وجہ سے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمہارے اندر شرک اس قدر غیر محسوس طور پر داخل ہوجاتا ہے جس طرح چیونٹی کے چلنے کی آواز خفیہ ہوتی ہے۔ حضرت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سلسلے میں چند نمونے بیان فرمائے ہیں جن سے شرک خفی کو سمجھا جاسکتا ہے ۔ امام ترمذی نے ابن عمر سے روایت کی ہے " جس نے اللہ کے سوا کسی اور کی قسم کھائی اس نے شرک کا ارتکاب کیا ۔" امام ابو داؤد اور امام احمد وغیرہ نے حضرت ابن مسعود (رض) سے نقل کیا ہے " حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ دم اور تعویذ شرک ہے ۔" مسند امام احمد میں عقبہ ابن عامر کی حدیث نقل ہوئی ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا " جس نے تعویذ لٹکایا اس نے شرک کا ارتکاب کیا " حضرت ابوہریرہ (رض) نے انہی کی سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا “ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میں شریکوں کی شرکت کا محتاج نہیں ہوں جس نے بھی کوئی عمل کیا اور اس میں میرے ساتھ کسی غیر کو شریک کیا تو میں اسے اس غیر کے حوالے کردیتا ہوں "
[1] اللہ تعالیٰ کے علم کی وسعت کا نام تقدیر ہے۔ یہ اسی نے لکھی ہے اور وہی اس میں تصرف کا مختار وقادر ہے۔ صرف وہی دلوں کو پھیر سکتا ہے اور اسی کے ہاتھ میں تام اختیارات ہیں ، جسےچاہے ہدایت دے اور جسے چاہے ہدایت سے محروم کردے ۔ اللہ کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر خطبہ میں یہ پڑھتے تھے:" من یھدہ اللّٰه فلا مضل لہ امن یضلل فلا ھادی لہ۔" [2] بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نومیدی مجھے بتا تو سہی اور کافری کیاہے۔