کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 221
حصول سے عاجز ہوں ۔ یہ تو تمام جہاں والوں کے لیے کھلی نصیحت ہے۔ یہ ایک ایسا کھلا دستر خوان ہے جس پر تمام لوگ مدعو ہیں جو چاہے اسے قبول کرلے۔" [1] ﴿ وَكَاَيِّنْ مِّنْ اٰيَةٍ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ يَمُرُّوْنَ عَلَيْهَا وَهُمْ عَنْهَا مُعْرِضُوْنَ وَمَا يُؤْمِنُ اَكْثَرُهُمْ بِاللّٰهِ اِلَّا وَهُمْ مُّشْرِكُوْنَ ﴾ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا واقعہ یوسف کو اس کی اصل حالت ، کیفیت اور صورت میں بیان کرنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت وسچایہ کی دلیل ہے لیکن یہودوہنود اور مشرکین اس کو ماننے کے لیے کسی صورت تیار نہیں تھے تو اللہ تعالیٰ نے اس آیت مبارکہ میں عام لوگوں کی سرشت سے پردہ اٹھاتے ہوئے فرمایا: " ۔ ۔۔ زمین و آسمان میں کتنی ہی نشانیاں ہیں جن پر سے یہ لوگ گزرتے رہتے ہیں اور ذرا توجہ نہیں کرتے ”۔ وہ نشانیاں جو ذات باری پر گواہی دے رہی ہیں ، جو اللہ کی وحدانیت اور قدرت پر دلالت کرتی ہیں وہ اس کائنات میں جگہ جگہ بکھری پڑی ہیں اور لوگوں کی بصارت اور بصیرت کو دعوت نظارہ دے رہی ہیں ۔ یہ آسمانوں میں بھی ہیں اور زمین میں بھی ہیں اور یہ لوگ صبح و شام ان کا مشاہدہ بھی کر رہے ہیں ۔ رات کے وقت بھی یہ ان کے سامنے ہوتی ہیں اور صبح کے وقت بھی ۔ یہ لوگوں کو پکار پکار کر دعوت دے رہی ہیں اور یہ اس قدر کھلی ہیں کہ لوگوں کی نظروں اور ان کے درمیان کوئی چیز حائل نہیں ہے۔ یہ انسان کے قلب و نظر کو دعوت فکر دے رہی ہیں ، لیکن لوگ نہ ان کو دیکھتے ہیں ، نہ ان کی پکار کی طرف کان دھرتے ہیں اور نہ ان کے جھنجھوڑنے سے ان کا احساس جاگتا ہے۔ ذرا ایک لمحے کے لئے سورج کے طلوع اور غروب پر ہی غور کرلو ، ذرا درختوں کے سائے پر ہی غور کرلو کہ کس طرح غیر محسوس انداز میں گھٹتا بڑھتا ہے۔ ذرا ناپید کنار سمندر کو دیکھو ، ذرا زمین میں سے ابلتے ہوئے چشموں کی دیکھو ، ذرا بہتی ہوئی ندیوں کا نظارہ کرو ، ذرا فضائے آسمانی میں اڑنے والے پرندوں کو دیکھو ، اور پھر ذرا پانی کے اندر تیرتی ہوئی
[1] سید قطب شہید:تفسیر فی ظلال القرآن۔