کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 220
لیکن اس کا اصل مقصد مخاطب گروہ کو جس کے مجمع میں یہ تقریر کی جارہی تھی، ایک نہایت لطیف وبلیغ طریقہ سے اس کی ہٹ دھرمی پر متنبہ کرنا ہے، انہوں نے اپنی محفل میں آپ کو امتحان کے لیے بلایا تھا اور اچانک یہ مطالبہ کیا تھا کہ اگر تم نبی ہو تو بتاؤ بنی اسرائیل نے مصڑ جانے کا قصہ کیا ہے، اس کے جواب میں ان کو وہیں اور اسی وقت پورا قصہ سنا دیا گیا اور آخر میں یہ مختصر سا فقرہ کہہ کر آئینہ بھی ان کے سامنے رکھ دیا گیا کہ ہٹ دھرمو اس میں اپنی صورت دیکھ لو، تم کس منہ سے امتحان لینے بیٹھے تھے ؟ معقول انسان اگر امتحان لیتے ہیں تو اس لیے لیتے ہیں کہ اگر حق ثابت ہوجائے تو اسے مان لیں گے، مگر تم وہ لوگ ہو جو اپنا منہ مانگا ثبوت مل جانے پر بھی مان کر نہیں دیتے۔ " [1] ﴿وَمَا تَسْــــَٔـلُهُمْ عَلَيْهِ مِنْ اَجْرٍ ۭ اِنْ هُوَ اِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعٰلَمِيْنَ﴾ " یہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلی ہے کہ اگر یہ لوگ نہیں مانتے تو ان کے پیچھے آخر اپنے آپ کو اتنا پریشان کیوں رکھو۔ تم یہ نعمت مفت بانٹ رہے تھے، اس کا کوئی معاوضہ تو ان سے طلب نہیں کر رہے تھے کہ انہوں نے اس کو قبول نہ کیا تو اس سے تمہارے معاوضے میں کوئی کمی ہوجائے گی۔ محرومی ہے تو ان کی نہ کہ تمہاری۔ یہ قرآن تو بس خلق کے لیے ایک یاد دہانی ہے، جس اس کو بقول کرے گا اس کا فائدہ اسی کے لیے ہے، جو نہ قبول کرے گا اس کا خمیازہ وہ خود بھگتے گا، تمہاری ذمہ داری بس لوگوں تک اس کو پہنچا دینے کی ہے۔ اس کے بعد تم سبکدوش ہو۔ "[2] " ۔ ۔ ۔ یہ تو ایک نصیحت ہے جو دنیا والوں کے لیے عام ہے ”۔ آپ ان کو آیات الٰہیہ کی یاد دہانی کرا رہے ہیں ، ان کی بصارت اور بصیرت دونوں کو راہ ہدایت کی طرف موڑنا چاہتے ہیں اور یہ رہنمائی تمام جہان والوں کے لیے عام ہے ، یہ کسی ایک قوم ، کسی مخصوص نسل اور کسی خاص قبیلے کے لئے محدود نہیں ہے۔ اس کی کوئی بھی قیمت مقرر نہیں ہے کہ کوئی ادا کرنے سے قاصر ہو ، صرف اغنیاء ہی اسے خرید سکتے ہیں ۔ فقراء کے بس کی بات نہ ہو۔ نیز اس کے حصول کے لئے کوئی جسمانی توانائی کی شرط بھی نہیں ہے کہ طاقتور لوگ اسے حاصل کرسکتے ہیں اور ناتواں اس کے
[1] مولانا مودودی: تفہیم القرآن۔ [2] مولانا امین احسن اصلاحی : تدبر قرآن۔