کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 219
کے راستے کا روڑا ہے۔ ان کو ایمان سے روک رہا ہے۔ اس کائنات میں جگہ جگہ جو دلائل بکھرے ہوئے ہیں ، یہ ان سے استفادہ نہیں کرتے۔"[1] اور" ان کفار کی ہٹ دھرمی کا یہ حال ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت پر اتنے واضح دلائل دیکھنے کے بعد بھی ایمان لانے کو تیار نہیں ہیں ۔ (کذافی الروح) ۔ "[2] "آپ تو فقط تبلیغ پر مامور ہیں ، اگر یہ لوگ ایمان نہیں لاتے تو آپ کا کچھ نقصان نہیں ہے۔ آپ اس کام کے لئے کسی کوئی اجر طلب نہیں کرتے۔ لیکن اس کے باوجود یہ لوگ اعراض کرتے ہیں اور ہدایات سے منہ پھیرتے ہیں حالانکہ یہ ہدایت انہیں مفت فراہم کی جا رہی ہے۔" [3] چونکہ ان کے مدارک اورقوت فیصلہ فاسد ہوچکے ہیں ۔ نیز ان کے امتحان اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوالات کرنے کا مقصد یہ نہیں کہ حق واضح ہوبلکہ یہ تو صرف اور صرف حق سے فرار کے بہانے تلاش کرتے ہیں ۔ اس لئے خیر خواہوں کی خیر خواہی انہیں کوئی فائدہ نہیں دے گی اگرچہ خیر کی راہ میں حائل ساری رکاوٹیں ختم ہی کیوں نہ ہوں اوریہ خیر خواہی اپنی صداقت پر شواہد، آیات اور دلائل ہی کیوں نہ پیش کرے۔ بقول مولانا مودودی:" ان لوگوں کی ہٹ دھرمی کا عجیب حال ہے، تمہاری نبوت کی آزمائش کے لیے بہت سوچ سمجھ کر اور مشورے کر کے جو مطالبہ انہوں نے کیا تھا اسے تم نے بھری محفل میں برجستہ پورا کردیا، اب شاید تم متوقع ہوگے کہ اس کے بعد تو انہیں یہ تسلیم کرلیتے ہیں کوئی تامل نہ رہے گا کہ تم یہ قرآن خود تصنیف نہیں کرتے ہو بلکہ واقعی تم پر وحی آتی ہے، مگر یقین جانو کہ یہ اب بھی نہ مانیں گے اور اپنے انکار پر جمے رہنے کے لیے کوئی دوسرا بہانہ ڈھونڈ نکالیں گے کیونکہ ان کے نہ ماننے کی اصل وجہ یہ نہیں ہے کہ تمہاری صداقت کا اطمینان حاصل کرنے کے لیے یہ کھلے دل سے کوئی معقول دلیل چاہتے تھے اور وہ ابھی تک انہیں نہیں ملی، بلکہ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ تمہاری بات یہ ماننا چاہتے ہی نہیں ہیں ، اس لیے ان کو تلاش دراصل ماننے کے لیے کسی دلیل کی نہیں بلکہ نہ ماننے کے لیے کسی بہانے کی ہے۔ اس کلام سے مقصود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کسی غلط فہمی کو رفع کرنا نہیں ہے، اگرچہ بظاہر خطاب آپ ہی سے ہے،
[1] سید قطب شہید :تفسیرفی ظلال القرآن۔ [2] محمد عبدہ الفلاح :اشرف الحواشی [3] سید قطب شہید :تفسیرفی ظلال القرآن۔