کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 218
(٣) ۔۔۔۔ علامہ بغوی (رح) لکھتے ہیں جس وقت یعقوب (علیہ السلام) کی اولاد نے یوسف (علیہ السلام) کو کنویں میں ڈالا اس وقت آپ موجود نہ تھے ” ما کنت یا محمد عند اولاد یعقوب “ الخ (معالم التنزیل : ص : ٣٨٠: ج : ٢) (٤) ۔۔۔۔ علامہ اندلسی لکھتے ہیں ” ان محمدا (صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم) ما کان معھم ۔‘‘ الخ (ص : ٣٥٠: ج : ٥) (٥) ۔۔۔۔ علامہ آلوسی لکھتے ہیں ” والمعنی ان ھذا النبا غیب لم تعرفہ الا بالوحی لانک لم تحضر اخوۃ یوسف (علیہ السلام) حین عزموا علی ما ھموا بہ من ان یجعلوہ فی غیابۃ الجب ۔‘‘ (روح المعانی : ص : ٨١: ج : ١٣) " [1] علامہ البانی رحمہ اللہ کا ایک واقعہ بیان کیا جاتاہے کہ ایک ایسے شخص کے ساتھ ان کا مناظرہ طے پایا جو غیب دان ہونے کا مدعی تھا۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس سے یہ کہا کہ مناظرہ کرنے سے پہلے میری ایک شرط تمہیں پوری کرنا ہوگی اس شخص نے کہا کہ آپ وہ شرط بتائیں ! علامہ البانی رحمہ اللہ نے کہا:" جب تمہیں اس شرط کا ہی پتہ نہیں توتم غیب دان کیسے ہو سکتے ہو۔؟ " چنانچہ اس طرح مناظرہ شروع ہونے سے پہلے ہی آپ جیت گئے۔فللہ الحمد۔ ﴿وَمَآ اَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِيْنَ ﴾ "رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بڑی شدت کے ساتھ یہ چاہتے تھے کہ آپ کی قوم ایمان لے آئے۔ آپ چاہتے تھے کہ آپ جو بھلائی لے کر آئے ہیں وہ ان تک پہنچ جائے اور وہ محروم بھی نہ رہیں ، نیز آپ کو اپنی برادری پر ترس آ رہا تھا کہ اگر وہ شرک کی حالت پر ہی رہے تو دنیا میں بھی ان کو روز بد دیکھنا ہوگا اور آخرت میں وہ دائمی عذاب میں مبتلا رہیں گے لیکن اللہ تعالیٰ تو انسانی دلوں کے بہت ہی قریب ہے ، وہ علیم وخبیر ہے۔ وہ انسانوں کے مزاج اور ان کے حالات سے اچھی طرح باخبر ہے۔ اس لیے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتلایا جاتا ہے کہ آپ کی یہ حرص اور یہ شدید خواہش ان کو اسلام کی طرف راغب نہ کرسکے گی ، اور ان میں سے اکثر مشرک ہی رہیں گے اس لیے کہ یہ لوگ آیات الٰہی کو دیکھ کر یونہی گزر جاتے ہیں ، منہ پھیر لیتے ہیں اور ان کا یہ اعراض ہی ان
[1] مولاناعبد القیوم قاسمی: تفسیر معارف القرآن۔