کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 217
ہوئے۔ جیسے حضرت مریم (علیہاالسلام) کے قصے کو بیان فرماتے ہوئے ارشاد ہوا ہے کہ جب وہ قلمیں ڈال رہے تھے کہ مریم کو کون پالے تو اس وقت ان کے پاس نہ تھا۔ الخ۔ حضرت موسیٰ کو اپنی باتیں سمجھا رہے تھے تو وہاں نہ تھا۔ اسی طرح اہل مدین کا معاملہ بھی تجھ سے پوشیدہ ہی تھا۔ ملاء اعلٰی کی آپس کی گفتگو میں تو موجود نہ تھا۔ یہ سب ہماری طرف سے بذریعہ وحی تجھے بتایا گیا یہ کھلی دلیل ہے تیری رسالت ونبوت کی کہ گزشتہ واقعات تو اس طرح کہول کھول کر لوگوں کے سامنے بیان کرتا ہے کہ گویا تو نے آپ بچشم خود دیکھے ہیں اور تیرے سامنے ہی گزرے ہیں ۔ پھر یہ واقعات نصیحت وعبرت حکمت وموعظت سے پر ہیں ، جن سے انسانوں کی دین و دنیا سنور سکتی ہے۔ " [1] "اے محمد ! (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت یوسف کے معاملے میں سے غیب کی خبروں میں سے جو ہم نے آپ کے سامنے بیان کی ہیں ۔"[2] "(آیت)” وما کنت لدیھم" یہ ایسے واقعات ہیں جن میں آپ حاضر نہیں تھے لیکن ہم بذریعہ وحی آپ کو غیب پر مطلع کر رہے ہیں ، ۔ ۔ ۔ چناچہ حضرات مفسرین (رح) فرماتے ہیں : (١) ۔۔۔۔ علامہ نفسی (رح) لکھتے ہیں ” والمعنی ان ھذا النباء غیب لم یحصل لک الا من جھت الوحی لانک لم تحضربنی یعقوب حین اتفقوا علی القاء اخیھم فی البئر “(تفسیر مدارک : ص : ٤٨: ج : ٣) (٢) ۔۔۔۔ علامہ خازن (رح) لکھتے ہیں ” من انباء الغیب “ یعنی اخبار الغیب ” نوحیہ الیک یعنی الذی اخبرنا بہ من اخباریوسف وحی الیک یا محمد وما کنت لدیھم “ یعنی وما کنت یا محمد عند اولاد یعقوباذاجمعوا امرھم “ یعنی حین عزموا علی القاء یوسف (علیہ السلام) فی الجب ۔‘‘ (خازن : ص : ٤٨: ج : ٣)
[1] ابن کثیر، أبو الفداء إسماعيل بن عمر بن كثير القرشي البصري ثم الدمشقي (المتوفى: 774هـ):تفسير القرآن العظيم۔ [2] القرطبی،ابو عبد اللّٰه ،محمد بن احمد بن ابی بكر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدين (المتوفى: 671هـ): الجامع لأحكام القرآن الشهيربتفسير القرطبی۔