کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 216
تھے کیونکہ حضرت یوسف (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کی تاریخ سے عربوں کو کبھی کوئی واسطہ نہیں رہا۔ اس کے باوجود آپ نے ان کے سوال کرنے پر ایک ہی نشست میں ان کے سامنے جس طرح تاریخ کے کئی ابواب کھول کر رکھ دیئے ہیں ۔ کتنی باتیں ہیں جس میں آپ نے بائبل کی اصلاح کی ہے۔ اور کتنے حکمت کے موتی ہیں جن سے بائبل خاموش ہے۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خاص طور پر ان پر زور دیا ہے۔ یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی ایک واضح اور روشن دلیل ہے کہ ادھر قریش نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا اور ادھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سوال کے جواب میں حیرت انگیز طور پر تاریخ کھول کر ان کے سامنے رکھ دی جبکہ پورے جزیرہ عرب میں اس کا جاننے والا کوئی نہ تھا اور کتنی ہی باتیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسی بیان کیں جس سے بائبل خاموش تھی یا اس کا بیان غلط تھا۔" [1] "(١٠٢) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ سے جو حضرت یوسف (علیہ السلام) اور ان کے بھائیوں کا قصہ بیان کیا گیا یہ آپ کے اعتبار سے غیب کی خبروں میں سے ہے اور بذریعہ جبریل امین آپ کو یہ قصہ بتلاتے ہیں اور ظاہر ہے کہ آپ برادران یوسف (علیہ السلام) کے زمانے میں موجود نہ تھے، جب انہوں نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو کنوئیں میں ڈالنے کا پختہ ارادہ کرلیا تھا اور وہ یوسف (علیہ السلام) کی ہلاکت کے بارے میں تدابیر کررہے تھے۔ " [2] " حضرت یوسف (علیہ السلام) کا تمام و کمال قصہ بیان فرما کر کس طرح بھائیوں نے ان کے ساتھ برائی کی اور کس طرح ان کی جان تلف کرنی چاہی اور اللہ نے انہیں کس طرح بچایا اور کس طرح اوج وترقی پر پہنچایا اب اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرماتا ہے کہ یہ اور اس جیسی اور چیزیں سب ہماری طرف سے تمہیں دی جاتی ہیں تاکہ لوگ ان سے نصیحت حاصل کریں اور آپ کے مخالفین کی بھی آنکھیں کھلیں اور ان پر ہماری حجت قائم ہوجائے تو اس وقت کچھ ان کے پاس تھوڑے ہی تھا۔ جب وہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے ساتھ کھلا داؤ فریب کر رہے تھے۔ کنویں میں ڈالنے کے لئے سب مستعد ہوگئے تھے۔ صرف ہمارے بتانے سکھانے سے تجھے یہ واقعات معلوم
[1] ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی : تفسیرروح القرآن۔ [2] پروفیسر محمد سعید عاطف :تفسیر ابن عباس۔