کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 215
ہونے لگا ہے جیسا کہ ابعاد کا لفظ شر پر بولا جاتا ہے کہا جاتا ہے ابعد اللہ خدا سے ہلاک کرے پس تسبیح کا لفظ قولی ۔ فعلی اور قلبی ہر قسم کی عبادت پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔﴿ فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ﴾ [ الصافات/ 143] قو اگر یونس (علیہ السلام) اس وقت ( خدا کی تسبیح ( و تقدیس کرنے والوں میں نہ ہوتے ۔ یہاں بعض نے مستحین کے معنی مصلین کئے ہیں لیکن انسب یہ ہے کہ اسے تینوں قسم کی عبادت پر محمول کیا جائے ۔" [1] تفسیروبیان آیات از102تا108﴿ ذَلِكَ مِنْ أَنْبَاءِ . . .. وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ﴾ آیات تک کی تفسیر ﴿ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ الْغَيْبِ نُوْحِيْهِ اِلَيْكَ ۚ وَمَا كُنْتَ لَدَيْهِمْ اِذْ اَجْمَعُوْٓا اَمْرَهُمْ وَهُمْ يَمْكُرُوْنَ ﴾ "قصہ یوسف آپ ( علیہ السلام) کی نبوت کی دلیل حضرت یوسف (علیہ السلام) اور ان کے خاندان کی یہ سرگزشت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہزاروں سال پہلے کی ہے۔ جب برادرانِ یوسف آپ ( علیہ السلام) کیخلاف باہم مشورہ کررہے تھے اور کوئی قتل کا مشورہ دے رہا تھا اور کوئی کنویں میں پھینکنے کا۔ تو بالآخر وہ اپنی ایک رائے پر جمع ہوگئے کہ انہیں کنویں میں پھینک دیا جائے۔ اور یہ درحقیقت ایک سازش تھی کہ انہیں ختم کردیا جائے تاکہ باپ کی تمام توجہ ہماری طرف ہوجائے۔ جب یہ سب کچھ ہورہا تھا تو اے پیغمبر آپ تو ان کے پاس نہیں تھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جان سکتے کہ انھوں نے کیا مشورے کیے اور کیا فیصلہ کیا۔ یہ تو بالکل ایک ایسی داستان ہے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احاطہ علم سے باہر کی چیز ہے۔ اگر جو اس کا ذکر بائبل میں کیا گیا ہے لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چونکہ امی محض ہیں ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لکھ پڑھ نہیں سکتے۔ اس لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسے پڑھ کر بھی معلوم نہیں کرسکتے تھے اور عرب کے رہنے والے بھی ان باتوں سے قطعاً ناواقف
[1] أبو القاسم الحسين بن محمد المعروف بالراغب الأصفهانى (المتوفى: 502هـ): المفردات في غريب القرآن۔