کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 207
نیکوں میں ملا دے)"یعنی اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے شوق میں جلد موت کی تمنا کی، ہوسکتا ہے یہ ان کی شریعت میں جائز ہو جیسا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرب موت کے وقت اس قسم کے اشتیاق کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا۔ اللَّھم فی الرقیق الاعلی “ اے اللہ مجھے رفیق اعلیٰ سے ملادے۔ (ابن کثیر)" [1]
یوسفعلیہ السلام کاحالت ایمان میں موت آنے کی دعاکرنا
" آیت کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ جب کبھی مجھے موت آئے تو اس حال میں آئے کہ میں مسلمان ہوں ۔ اکثر مفسرین نے یہی مفہوم مراد لیا ہے و بین السطور ترجمہ سے پہلے مفہوم مترشح ہوتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ کوئی مصیبت یا تکلیف سے گھبرا کر موت کی تمنا نہ کرے۔ البتہ جب دین میں تفنہ کا خوف ہو تو تمنا کرسکتا ہے جیسا کہ فرعون کے جادوگروں نے اسلام لانے کے بعد دعا کی: ربنا افرغ علینا صبرا وتوقنا مسلمین۔ اور حضرت مریم ( علیہ السلام) نے کہا : یالیتنی مت قبل ھذا وکنت نسیا منسیا۔ ایک دعا میں ہے۔ واذا اردت بقوم فنۃ فاقبضنی عیس مفتون الیک۔ (اے خدا) جب تو کسی قوم کو فتنہ میں مبتلا کرنا چاہے تو فتنہ سے بچا کر مجھے اٹھا لے۔ (مسند احمد۔ ترمذی) ۔ حضرت علی (رض) نے اپنی خلافت کے آخری دور میں جب حالات بگڑتے دیکھے تو دعا کی۔ اللَّھم خزالی الیک فقد سمئتھم۔ امام بخاری کو جب امیر خراسان سے جھگڑا پیش آیا تو انہیں یہ دعا کرنی پڑی۔ اللَّھم توفنی الیک ! مجھے اپنی طرف بلالے (مختصر از بن کثیر) ۔" [2]
[1] شیخ محمد عبدہ الفلاح: تفسیر اشرف الحواشی۔
[2] شیخ محمد عبدہ الفلاح: تفسیر اشرف الحواشی