کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 206
جائیگا یہ اس کا وعدہ ( پورا ) ہو کر رہے گا ۔ فطر ت الشاۃ : میں نے بکری کو دو انگلیوں سے دو ہا فطرت العجین : آٹا گوندھ کر فورا روتی پکانا ۔ ( اسی سے فطرت ہے جس کے معنی تخلیق کے ہیں اور فطر اللہ الخلق کے معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کی تخلیق اس طرح کی ہے کہ اس میں کچھ کرنے کی استعداد موجود ہے پس آیت کریمہ : ۔﴿ فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْها﴾[ الروم/ 30] اور خدا کی فطرت کو، جس پر لوگوں کو پیدا کیا ( اختیار کئے رہو۔ میں اس معرفت الہی کی طرف اشارہ ہے جو تخلیق طور پر انسان کے اندر ودیعت کی گئی ہے لہذا فطرۃ اللہ سے معرفت الہیٰ کی استعداد مراد ہے جو انسان کی جبلت میں پائی جاتی ہے ۔ چناچہ آیت : ۔﴿ وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ ﴾[ الزخرف/ 87] اور اگر تم ان سے پوچھو کہ ان کو کس نے پیدا کیا تو بول اٹھیں گے خدا نے ۔ میں اسی قوت معرفت کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے: ﴿الْحَمْدُ لِلَّهِ فاطِرِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ ﴾[ فاطر/ 1] سب تعریف خدا ہی کو سزا وار ہے جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے ۔﴿ الَّذِي فَطَرَهُنَّ﴾ [ الأنبیاء/ 56] جس نے ان کو پیدا کیا ہے ۔﴿ وَالَّذِي فَطَرَنا﴾ [ طه/ 72] اور جن نے ہم کو پیدا کیا ہے ۔ اور آیت کریمہ :﴿ السَّماءُ مُنْفَطِرٌ بِهِ ﴾[ المزمل/ 18] اور جس سے آسمان پھٹ جائے ۔ میں ہوسکتا ہے کہ انفطار سے اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس پر فیضان ہوگا ۔ وہ اسے قبول کرلے گا الفطر روزہ افطار کرنا ۔ کہا جاتا ہے ۔ فطر تہ وافطرتہ افطرھو یعنی لازم اور متعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے اور گما ۃ کھمبی ) کو فطر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ زمین کو پھاڑ کر باہر نکلتی ہے ) تفسیروبیان آیت 101 ﴿رَبِّ قَدْ آتَيْتَنِي . . . وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ﴾ آیات تک کی تفسیر ملاقات الہی کا اشتیاق " ہم اگر خوشحال ہوں تو ہماری یہ تمنا ہوتی ہے کہ اس خوشحالی سے لطف اٹھائیں اور اپنے اعزہ واقارب کی صحبت میں لمبا عرصہ رہیں جبکہ سیدنا یوسف علیہ کی دعا ہمارے اس طرزعمل اور سوچ کے بر عکس ہے نانچہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں عرض کی: (تو مجھے اسلام کی حالت میں فوت کر اور