کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 204
تھی۔ لیکن جہاں تک بھائیوں کا تعلق ہے وہ تو ان کے خون کے پیاسے رہ چکے تھے لیکن آپ ( علیہ السلام) بجائے اس کے کہ ان کی دشمنی کا ذکر کریں اور انہیں اس کے ذمہ دار ٹھہرا کر ان پر ملامت کے تیربرسائیں ۔ اس کے برعکس یہ فرما رہے ہیں کہ میرے اور بھائیوں کے درمیان جو ناگوار صورتحال پیدا ہوئی یہ سب کچھ شیطان کا کیا دھرا تھا۔ بھائیوں کو شیطان نے ایسا بہکایا کہ وہ خیر و شر میں تمیز نہ کرسکے۔ لیکن میں ان کی آمد کو بھی اللہ تعالیٰ کا انعام سمجھتا ہوں ۔ وہ بہرحال میرے بھائی ہیں ، میرے خون کا حصہ ہیں ۔ اس لیے میں ان کے حق قرابت کو کیسے بھول سکتا ہوں ۔ لیکن ساتھ ہی فرمایا کہ میرا رب لطیف ہے، وہ بہت باریک بین اور بےحد دقیقہ رس ہے۔ وہ جب کسی پر انعامات کرنا چاہتا ہے تو بظاہر اس پر جو مصیبتیں اترتی ہیں ان کے اندر سے راحت رسانی کے سامان پیدا کردیتا ہے۔ وہ محرومیوں اور مایوسیوں میں امیدوں کے پھول اگا دیتا ہے۔ وہ بظاہر ناکامیوں میں کامیابیوں کی سحر طلوع کردیتا ہے۔ نگاہیں کچھ دیکھ رہی ہوتی ہیں لیکن اس کی قدرت سے کچھ اور ظہورپذیر ہوتا ہے۔ میں بظاہر حوادث کا شکار ہوا لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں حوادث سے تخت و تاج کا راستہ نکالا۔ ہم ظاہربین لوگ اپنی نارسائیوں کو علم اور اپنی کوتاہیوں کو حکمت سمجھ بیٹھتے ہیں ۔ لیکن حقیقت میں علیم اور حکیم صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔" [1] آیت 101 ﴿رَبِّ قَدْ آتَيْتَنِي . . . وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ﴾ ﴿ رَبِّ قَدْ آتَيْتَنِي مِنَ الْمُلْكِ وَعَلَّمْتَنِي مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَنْتَ وَلِيِّي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ ﴾ |101| 12 اے میرے پروردگار! تو نے مجھے ملک عطا فرمایا اور تو نے مجھے خواب کی تعبیر سکھلائی۔ اے آسمان وزمین کے پیدا کرنے والے! تو ہی دنیا وآخرت میں میرا ولی (دوست) اور کارساز ہے، تو مجھے اسلام کی حالت میں فوت کر اور نیکوں میں ملا دے
[1] ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی: تفسیر روح القرآن۔