کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 203
موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ فرعون سے بھاگ کر نکلے تو چھ لاکھ پانچ سو ستر اور کچھ مجاہدین تھے۔ " [1] ﴿ھَذَا تَاوِیْلُ رُؤْیَایَ مِنْ قَبْلُ قَدْ جَعَلَھَا رَبِّیْ حَقًّا﴾ سجدہ کا مناسب ترین وقت یہ وہ وقت تھا جب یوسف کی شخصیت پوری طرح بھائیوں کے سامنے ظاہر ہو چکی تھی۔ ان کے دل میں یوسف علیہ السلام کا احترام جا گزیں ہوچکاتھا۔چنانچہ یہ سجدہ واقعی ادب و محبت اور قلبی تعظیم سے لبریز تھا۔ اسی لیے اسے حق سے تعبیر کیا گیا ہے: " حق کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ (حق) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جس طرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ ﴿كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ﴾ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔" [2] حضرت یوسف (علیہ السلام) کا حُسنِ اخلاق " حضرت یوسف (علیہ السلام) کے اخلاق کی بلندی دیکھئے کہ وہ اپنے تمام کنبے کی آمد کو اللہ تعالیٰ کی نعمت قرار دے رہے ہیں ۔ ان کے والدین کی تشریف آوری تو یقینا ان کے لیے نعمت غیرمترقبہ
[1] القرطبی،ابو عبد اللّٰه ،محمد بن احمد بن ابی بكر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدين (المتوفى: 671هـ): الجامع لأحكام القرآن الشهيربتفسير القرطبی۔ [2] أبو القاسم الحسين بن محمد المعروف بالراغب الأصفهانى (المتوفى: 502هـ): المفردات في غريب القرآن۔ فی غریب القرآن۔