کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 202
اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر لطف وکرم "خطابی نے کہا : لطیف سے مراد وہ ذات ہے جو اپنے بندوں پر لطف وکرم ایسے طریقے سے کرتا ہے جن کو بندے جانتے بھی نہیں ہوتے اور وہ ان کے لیے ایسے اسباب مہیا فرمادہتا ہے جو ان کے گمان میں بھی نہیں ہوتے، جس طرح کے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ؛ ﴿ اللَّـهُ لَطِيفٌ بِعِبَادِهِ يَرْزُقُ مَن يَشَاءُ ﴾ (الشوریٰ:19) ایک قول کے مطابق لطیف سے مراد معاملات کے وقائق کو جاننے والا ہے۔" [1] کنعان سے مصر کی طرف ہجرت کرتے وقت آل یعقوب کی تعداد "اپنے گھرانے کے بیاسی آدمیوں کے ساتھ آپ مصر میں داخل ہوئے اور پھر وہ لوگ مصر سے تب نکلے جب ان کی تعدا چھ لاکھ اور کچھ ہزار ہوگئی۔ انھوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ دریاکو عبور کیا، اس بات کو عکرمہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے۔ حضرت ابن مسعود (رض) نے بیان فرمایا کہ جب وہ مصر میں داخل ہوئے تو مرد، عورتیں ملاکر وہ کل ترانوے آدمی تھے اور جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ نکلے تو ان کی تعداد چھ لاکھ ستر ہزار تھی۔ ربیع بن خثیم نے کہا : جب داخل ہوئے تو ان کی تعداد بہتر ہزار تھی اور جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ نکلے تو چھ لاکھ تھے۔ حضرت وہب نے کہا : جب حضرت یعقوب (علیہ السلام) اور آپ کے بیٹے مصر میں داخل ہوئے تو مرد، عورتیں اور بچے ملا کر نوے آدمی تھے اور جب حضرت
[1] القرطبی،ابو عبد اللّٰه ،محمد بن احمد بن ابی بكر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدين (المتوفى: 671هـ): الجامع لأحكام القرآن الشهيربتفسير القرطبی،جلد9،صفحہ267۔