کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 200
پر دلالت کرتا ہے اور تواضع سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی اور کے لیے جائز نہیں ۔ اور جہاں تک ہاتھوں کو بوسہ دینے کا تعلق ہے تو یہ عجمیوں کا عمل ہے اور ان کے ایسے افعال کی اتباع نہیں کی جائے گی جو انہوں نے اپنے بڑوں کی تعظیم کے لیے خود بنالیے ہیں ، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” تم میرے سر کے پاس اس طرح کھڑے نہ ہوا کرو جس طرح عجمی اپنے سے برتر لوگوں کے سر کے پاس کھڑے ہوتے ہیں ۔‘‘ تو یہ عمل اسی کے مثل ہے البتہ مصافحہ میں کوئی حرج نہیں ، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حبشہ سے واپسی کے موقع پر حضرت جعفر بن ابی طالب کے ساتھ مصافحہ کیا اور اس کا حکم بھی ارشاد فرمایا :” باہم مصافحہ کیا کرو یہ کھوٹ کو دور کرتا ہے ۔‘‘ غالب تمارنے حضرت شعبی سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ جب ملاقات کرتے تو مصافحہ کرتے تھے اور جب سفر سے واپس لوٹتے تو معانقہ کرتے تھے، ۔ ۔ ۔ " [1] "حضرت براء بن عازب (رض) کی روایت ہے آپ نے فرمایا :"میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ملا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑلیا تو میں نے عرض کیا : یارسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میں تو یہ گمان کرتا تھا کہ مصافحہ عجمیوں کا (طریقہ) ہے ؟ آپ نے فرمایا :” ہم ان سے زیادہ مصافحہ کے حقدار ہیں جب دو مسلمان ایک دوسرے کو ملتے ہیں اور باہم محبت اور اخلاص کی بنیاد پر ان میں سے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑتا ہے تو ان کے گناہوں کو معاف کردیا جاتا ہے ۔" [2] مصافحہ کےآداب "حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اگر ہم میں سے کوئی اپنے کسی بھائی یا دوست کو ملے تو کیا اس کے لئے جھکے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
[1] القرطبی،ابو عبد اللّٰه ،محمد بن احمد بن ابی بكر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدين (المتوفى: 671هـ): الجامع لأحكام القرآن الشهيربتفسير القرطبی،جلد9،صفحہ266۔ [2] القرطبی،ابو عبد اللّٰه ،محمد بن احمد بن ابی بكر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدين (المتوفى: 671هـ): الجامع لأحكام القرآن الشهيربتفسير القرطبی،جلد9،صفحہ266۔