کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 199
کا ارشاد ہے کہ آپ نے فرمایا :” جس کو اس بات نے خوش کیا کہ لوگ کھڑے ہو کر اس کا استقبال کریں تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے ٹھکانہ جہنم میں بنالے ۔‘‘ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نزدیک نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات سے بڑھ کر کوئی بھی زیادہ عزت والا نہ تھا اس کے باوجود وہ اس عمل ناپسندیدہ ہونے کی وجہ سے آپ کو دیکھ کر آپ کے لیے کھڑے نہیں ہوتے تھے۔" [1] "۔ ۔ ۔ جو اللہ کے احسان تھے سو ذکر کیے اور جو تکلیف تھی دخل شیطان سے اس کو منہ پر نہ لائے مجمل سنا دیا پہلے وقت میں سجدہ تعظیم تھے آپس کے فرشتوں نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو کیا ہے اس وقت اللہ نے وہ رواج موقوف کیا (آیت) ” وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّـهِ “الآیہ یہ اس وقت پہلے رواج پر چلنا ویسا ہے کہ کوئی بہن سے نکاح کرے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے وقت ہوا ہے ۔ ١٢۔ منہ : (رح) " [2] سلام و تسلیم کے آداب " اگر یہ کہا جائے کہ انگلی کے ساتھ اشارہ کرنے کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں ؟ تو اسے کہا جائے گا: یہ اس صورت میں جائز ہے جب بندہ آپ سے دور ہو، تاکہ آپ سلام کے وقت اس کی تعین کردیں ، اور اگر وہ قریب ہو تو پھر جائز نہیں جبکہ ایک قول قرب کی دونوں صورتوں میں منع صورتوں میں منع کا ہے اس کا سبب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ :” جس نے کسی اور کی مشابہت اختیار کی تو وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔‘‘ اور آپ نے فرمایا :” یہود ونصاریٰ کی طرح سلام نہ کرو، پس یہود کا سلام ہتھیلی کے ذریعے اور نصاریٰ کا سلام اشارہ کے ساتھ ہے ۔‘‘ اور جب کوئی سلام کرے تو وہ نہ جھکے اور نہ ہی سلام کے ساتھ اس کے ہاتھ کو چومے، اس کی وجہ یہ ہے کہ جھکنا تواضع
[1] القرطبی،ابو عبد اللّٰه ،محمد بن احمد بن ابی بكر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدين (المتوفى: 671هـ): الجامع لأحكام القرآن الشهيربتفسير القرطبی۔ [2] شاہ عبد القادر:تفسیر موضح القرآن۔