کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 198
بات پر اجماع ہے کہ وہ سجدہ جس بھی طریقے سے تھا صرف سلام کے طور پر تھا سجدہ عبادت نہیں تھا۔ قتادہ نے کہا : ان کے نزدیک بادشاہوں کا یہی سلام ہوتا تھا، اور اللہ تعالیٰ نے اس امت کو اہل جنت کا سلام السلام علیکم عطا فرمایا۔" [1] سجدہ تعظیمی کی حرمت اور آداب احترام "میں (قرطبی) نے کہا : یہ جھکنا اور اشارہ کرنا جس کو منسوخ کردیا گیا ہے یہ مصر کے علاقوں میں عجمیوں میں عادت بن چکا ہے، اسی طرح لوگوں کا کسی کے لیے کھڑا ہونا حتی کہ اگر وہ کھڑا نہ ہو تو آنے والا یہ محسوس کرتا ہے کہ اس نے اسے کوئی اہمیت نہیں دی اور اس کے دل میں اس کی کوئی قدر نہیں ، اسی طرح جب وہ ملاقات کرتے ہیں تو ایک دوسرے کے لیے جھکنا ان کی مستقل عادت اور مستقل رواثت ہے، بالخصوص امراء اور سرداروں سے ملاقات کے وقت۔ ان لوگوں کے طریقے کو اپنا لیا اور سنن سے اعراض کرلیا۔ حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے آپ نے فرمایا : ہم نے کہا : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! جب ہم ایک دوست کو ملیں تو کیا ایک دوسرے کے لیے جھکیں ؟ آپ نے فرمایا : ” نہیں ۔‘‘ ہم نے عرض کیا : کیا ہم ایک دوسرے کے ساتھ معانقہ کریں ! آپ نے فرمایا : ” نہیں ۔‘‘ ہم نے کہا : کیا ہم مصافحہ کریں ؟ آپ نے فرمایا :” ہاں ۔‘‘ اس روایت کو ابوعمر نے التمہید میں روایت کیا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بھی فرمایا ہے :” تم اپنے سردار اور اپنے سے بہتر آدمی کے لیے کھڑے ہوجاؤ ۔‘‘ مراد حضرت سعد بن معاذ (رض) تھے تو اس کا جواب یہ ہوگا کہ یہ ان مخصوص حالات کی بنیاد پر حضرت سعد کے ساتھ ہی خاص ہوگا۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ ان کا قیام اس لیے تھا تاکہ وہ آپ کو گدھے سے اتاریں اور یہ بڑی عمر کے آدمی کے لیے جائز ہے، بشرطیکہ وہ اس وجہ سے اپنے آپ کو بڑا بہ سمجھنے لگے اور اگر وہ اس عمل کی وجہ سے اپنے آپ کو بڑا سمجھنے اور اپنے لیے اس کو لطف اور راحت محسوس کرے تو علماء نے اسے بھی جائز قرار نہیں دیا۔ اس کی وجہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
[1] القرطبی،ابو عبد اللّٰه ،محمد بن احمد بن ابی بكر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدين (المتوفى: 671هـ): الجامع لأحكام القرآن الشهيربتفسير القرطبی،جلد9،صفحہ265،266۔