کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 196
اللہ تعالیٰ ہی غیب پر مطلع کرتاہے "کسی بزرگ کو اگر کوئی بات کسی وقت اللہ کی طرف سے معلوم ہوجائے تو وہ محض خداداد ہے نہ یہ کہ وہ غیب دان ہوگیا ایسے لوگوں کی مثال بالکل ویسی ہے جیسے کوئی تاربابو کو خبر دیتے ہوئے جو اسے دور دراز ملکوں سے پہنچی ہو سن کر جہالت سے اپنے اہل و عیال کا حال دریافت کرنے لگ جائے اور یہ نہ سمجھے کہ اس نے جو خبر بتلائی ہے وہ تو کسی کے بتلانے سے بتلائی ہے ورنہ اسے کیا معلوم کہ دیوار کے پیچھے کیا ہے شیخ سعدی مرحوم نے اسی کے متعلق کیا ہی اچھا کہا ہے : کسے پرسیدزاں گم کردہ فرزند کہ اے روشن گہر پیر خرد مند زمصرش بوئ پیراہن شنیدی چرا در چاہ کنعانش ندیدی بگفت احوال مابرق جہانست دمے پیدائو دیگردم نہانست گہے برطارم اعلیٰ نشینم گہے برپشت پائے خود نہ بینم "[1] آیات از99تا100﴿ فَلَمَّا دَخَلُوا عَلَى يُوسُفَ. . . الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ﴾ ﴿ فَلَمَّا دَخَلُوا عَلَى يُوسُفَ آوَى إِلَيْهِ أَبَوَيْهِ وَقَالَ ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ آمِنِينَ (99) وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ وَخَرُّوا لَهُ سُجَّدًا وَقَالَ يَاأَبَتِ هَذَا تَأْوِيلُ رُؤْيَايَ مِنْ قَبْلُ قَدْ جَعَلَهَا رَبِّي حَقًّا وَقَدْ أَحْسَنَ بِي إِذْ أَخْرَجَنِي مِنَ السِّجْنِ وَجَاءَ بِكُمْ مِنَ الْبَدْوِ مِنْ بَعْدِ أَنْ نَزَغَ الشَّيْطَانُ بَيْنِي وَبَيْنَ إِخْوَتِي إِنَّ رَبِّي لَطِيفٌ لِمَا يَشَاءُ إِنَّهُ هُوَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ ﴾ |99| 12 جب یہ سارا گھرانہ یوسف کے پاس پہنچ گیا تو یوسف نے اپنے ماں باپ کو اپنے پاس جگہ دی اور کہا کہ اللہ کو منظور ہے تو آپ سب امن وامان کے ساتھ مصر میں آؤ۔ |100| 12 اور اپنے تخت پر اپنے ماں باپ کو اونچا بٹھایا اور سب اس کے سامنے سجدے میں گر گئے۔ تب کہا کہ اباجی! یہ میرے پہلے کے خواب کی تعبیر ہے میرے رب نے اسے سچا کر دکھایا، اس نے میرے ساتھ بڑا
[1] مولانا ثناء اللہ امرتسری :تفسیر ثنائی۔