کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 194
کسی بھی ذریعے سے اپنی خیریت کی کوئی خبر اپنے والد کو بھیجنے کی کوشش نہیں کی۔ اول تو عزیز کے گھر میں رہنے کے دوران خبر بھیجنا کچھ مشکل نہ ہونا چاہیے تھا۔ پھر قید سے آزادی کے بعد تو ان کو ملک پر مکمل اقتدار بھی حاصل ہوچکا تھا۔ وہ شروع ہی میں حضرت یعقوب (علیہ السلام) اور اپنے سارے گھر والوں کو مصر بلانے کا انتظام کرسکتے تھے اور جو بات انہوں نے اپنے بھائیوں سے اب کہی وہ ان کی پہلی آمد کے موقع پر بھی فرما سکتے تھے اور اس طرح حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے رنج و غم کا زمانہ مختصر ہوسکتا تھا۔ لیکن انہوں نے ایسا کوئی اقدام نہیں کیا۔ اس کی وجہ بظاہر یہ معلوم ہوتی ہے کہ ان سارے واقعات میں اللہ کی بڑی حکمتیں پوشیدہ تھیں ۔ اور اللہ تعالیٰ کو اپنے محبوب بندے اور رسول حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے صبر و ضبط کا امتحان لینا تھا اس لیے اس پورے عرصے میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کو یہ اجازت نہیں دی گئی کہ وہ اپنے والد سے رابطہ کریں ۔ واللہ سبحانہ اعلم۔"[1] یوسف علیہ السلام کی عجیب وغریب قمیص "اِذْهَبُوْا بِقَمِيْصِيْ ۔۔ : بھائیوں کو معاف کردینے کے بعد گھر کے حالات کا تذکرہ ہوا، والد کے نابینا ہونے کی خبر پر ان کے علاج کے لیے اپنی قمیص بھیجی اور اپنے سارے گھر والوں کو اپنے پاس مصر میں لانے کا حکم دیا۔ یہ قمیص بھی عجیب تھی، کبھی یوسف (علیہ السلام) کو بھیڑیے کے کھا جانے کے ثبوت پر پیش کی گئی اور والد کو نابینا کرگئی اور کبھی یوسف (علیہ السلام) پر ارادۂ زنا کی تہمت لگی تو یہ ان کی صفائی بن گئی، اب اللہ کا حکم ہوا تو یعقوب (علیہ السلام) کی بینائی واپس ملنے کا ذریعہ بن گئی۔ یہ سب میرے مالک کی قدرت و مشیت ہے : ﴿فَسُبْحٰنَ الَّذِيْ بِيَدِهٖ مَلَكُوْتُ كُلِّ شَيْءٍ وَّاِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ ﴾ [ یسٓ : ٨٣ ] ” سو پاک ہے وہ کہ اسی کے ہاتھ میں ہر چیز کی کامل بادشاہی ہے اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے۔ “ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” یعنی ہر مرض کی اللہ کے ہاں دوا ہے، ایک شخص کے فراق میں یعقوب (علیہ السلام) کی آنکھیں ضائع ہوگئیں ، اس کے بدن کی چیز ملنے سے درست ہوگئیں ، یہ یوسف (علیہ السلام) کی کرامت تھی۔ “ (موضح) اور خوشی کی شدت
[1] مفتی تقی عثمانی: تفسیر آسان قرآن۔