کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 193
(مجھے معافی دیجیے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ورد کو پناہ دی جب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوگیا تو ور دسے زیادہ گناہ گار نہیں ہوں ۔) معجزات اور کرامات کی حقیقت وحکمت "فائدہ : حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کے معجزات اور اولیاء اللہ کی کرامات دیگر تمام امور کی طرح ان کا تعلق بھی اللہ تعالیٰ کی مشیت اور ارادہ سے ہے ‘ جب اللہ تعالیٰ کی مشیت ہو اور اس کی حکمت کا تقاضا ہو تو انبیاء کرام (علیہ السلام) سے معجزات ظاہر ہوجاتے تھے اور ان کے بعد ان کے متبعین سے کرامات ظاہر ہوتی رہی ہیں اس میں ان حضرات کے ارادہ کو کوئی دخل نہیں مشرکین مکہ طرح طرح کے معجزات کی فرمائش کرتے تھے اور حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خواہش بھی ہوتی تھی کہ ان کی طلب کے مطابق معجزہ ظاہر ہوجائے لیکن اللہ تعالیٰ کی جب حکمت اور مشیت ہوتی تھی تو اس وقت معجزہ کا ظہور ہوتا تھا ‘ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا اپنے چہیتے لخت جگر حضرت یوسف (علیہ السلام) کے احوال پر مطلع نہ ہونا (کہ وہ وہیں اپنے علاقہ کے کنویں میں ڈالے گئے ہیں ) اور مصر سے جب ان کا کرتہ لے کر قافلہ چلا کنعان سے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی خوشبو سونگھ لینا (جبکہ قافلہ کنعان سے بہت زیادہ دور تھا) اسی حقیقت کو ظاہر کرتا ہے ‘ شیخ سعدی (رض) نے ایک اچھے انداز میں اس کا یوں تذکرہ فرمایا ہے جو لطیف بھی ہے اور پر لطف بھی۔ فرماتے ہیں : یکے پرسد زان گم کردہ فرزند کہ اے روشن گہر پیر خرد مند از مصرش بوئے پیراہن شنیدی چر ادر چاہ کنعانش نہ دیدی"[1] ان سارے واقعات میں اللہ کی بڑی حکمتیں پوشیدہ تھیں "57: یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) یقینا جانتے ہوں گے کہ ان کی جدائی سے ان کے والد بزرگوار پر کیا گذر رہی ہوگی۔ اس کے باوجود اتنے لمبے عرصے تک انہوں نے
[1] مولانا عاشق الہی: تفسیر انوار القرآن۔