کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 191
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے امان نہیں مل جاتا۔ حتی کہ میں نے بغیر چوں و چرا کے بغیر اپنے آپ کوان کے حوالے کردیا اور خود ہی اپنا ہاتھ ان کے دست مبارک میں رکھ دیا جو وہ چاہیں کریں ، کیونکہ وہ سزاد ینے کی قوت رکھتے ہیں اور ان کا فیصلہ حتمی اور نافذ ہونے والا ہے مجھے ڈر رہتا تھ ا کہ جب میں ان سے ہم کلام ہوں گا تو کیا عذر پیش کروں گاجبکہ مجھے بات پہنچا دی گئی تھی کہ مجھے اپنی طرف منسوب الزام کا سوال ہوگا جس کا جواب دینا پڑے گا۔ ہمیشہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا صحن بہادر جوا نوں سے بھرا رہتا ہے۔ وہ ایسے بے لوث لوگ ہیں جن کا مطمع نظر کھانا پینا اور لباس پہننا نہیں ہے یقیناًوہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسی چمکدار تلوار ہیں جن کی روشنی سے جہاں روشن ہوا ہے۔ وہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اﷲ تعالیٰ کے دشمنوں کے لیے ننگی تلوار ہیں ۔"[1]
[1] 39-ابن کثیر، ابو الفداء إسماعيل بن عمر بن كثير القرشی البصری ثم الدمشقی (المتوفى: 774هـ): البدایۃ والنہایۃ ،ج4،ص 36۹تا 372، مکتبۃ المعارف، بیروت، مکتبتہ النصر، ریاض۔ ابن ہشام: السیرۃ النبویہ ،ج4،ص 147 تا155۔ درج بالا عبارت البدایہ والنہایہ کی ہے۔ ٭ حضر ت کعب رَضِیَ اللّٰهُ عَنہ نے جو قصیدہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور بطور معذرت پیش کیا اس کا آغاز انھوں نے غزل سے کیا کہ وہ اپنی محبوبہ کے خوبصورت دانتوں کا تذکرہ کرتے ہیں۔ پھراس کی جدائی کا شکوہ کرتے ہیں۔ اورپھر وعدہ خلافی اور وفادار یوں کی تبدیلی کا ذکر کرتے ہیں۔ سب کچھ انھوں نے ایک خاص انداز میں پیش کیا۔ مثلاًدانتوں کی مٹھاس کو انھوں نے ایسے ٹھنڈے شراب سے تشبہیہ دی ہے جس میں ٹھنڈے پانی کی ملاوٹ کردی جائے اور پھر اس کے جھوٹ بولنے وعدہ خلافی کرنے اور وفا داری تبدیل کرنے کو انھوں نے اس کی خونی فطرت کہا ہے اور اس طرح عہد وپیمان کے توڑنے کو انھوں نے چھاننی میں پانی کی مثال سے تشبیہ دی ہے اور پھر اس سے وفا کی امید رکھنے کو انھوں نے خیالی خواب اور گمراہی کی تصویر کہا ہے۔ یہ سب حسی تصویر کشی ہے جو کہ غزل کاایک انوکھا انداز ہے۔ جو اس سے قبل نہ تھا۔ اس کے بعد وہ اونٹنی کے اوصاف بیان کرنے کی طرف منتقل ہوتے ہیں۔ تو انوکھے انداز میں غریب الفاظ کے ساتھ تصویر کشی کرتے ہیں۔ مثلاً اس اونٹنی کی جسمانی بناوٹ دم کا چھوٹا پن اس کی لمبی گردن اس کے پہلوؤں کی کشادگی اس کے چہرہ کی ٹھو س بناوٹ دم کا چھوٹا پن قوم اربعہ کے نیزوں کی طرح مضبوطی چال کی تیزی ننگے پاؤں چلنا ہاتھوں کا تیزی سے حرکت کرنا جلد مڑنا یہ سب اوصاف انھوں نے مادی تشبہیہ میں پیش کیے ہیں کہ ایسے غریب الفاظ میں ایسی عمدہ تصویر کشی کہ ادب جاہلی میں یہ منفرد انداز ہے۔ حسن و جمال کانظارہ اور عمدہ تصویر کشی کے بعد وہ اصل مقصد کی طرف آتے ہوئے انھوں نے وہ اشعار کہے جو او پر درج ہیں۔