کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 187
نگاہ سے دیکھا جاتا اور ہمیشہ اس کے سامنے احترام کی نگاہیں بچھی رہتی ہیں جس کے بیٹے جوان اور بڑی تعداد میں ہوتے ہیں کیونکہ قبائلی زندگی میں طاقت اور قوت کے زور سے اپنے آپ کو منوایا جاتا ہے اور جوان بیٹے ہی ہر شخص کی طاقت ہوتے ہیں ۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ ہم ایک پورا جتھہ ہیں ، طاقت اور قوت سے بھرپور لیکن ہمارے والد کو بجائے ہمیں ترجیح دینے کے ہمیشہ ہر بات میں یوسف ( علیہ السلام) کی فکر رہتی ہے۔ اسی حسد اور اسی غلط فہمی نے ان سے وہ ظلم کروایا جس کا کوئی جواز نہ تھا۔ لیکن اب جبکہ بھائیوں نے تخت حکومت پر یوسف ( علیہ السلام) کو فائز دیکھا تو نہایت لجاجت اور شرمندگی سے اعتراف کرتے ہوئے کہنے لگے کہ ہم آج اللہ تعالیٰ اور خلق خدا کے سامنے اعتراف کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ ہمارے والد صاحب یوسف ( علیہ السلام) کو جس طرح ہم پر ترجیح دیتے تھے وہ یقینا حق بجانب تھے۔ ترجیح اور برتری کی حقیقت کو نہ سمجھنے کے باعث بھائیوں نے جو ظلم کیا آج اللہ تعالیٰ نے یوسف ( علیہ السلام) کو تخت حکومت پر بٹھا کر ان کے سامنے یہ بات ثابت کردی کہ یوسف ( علیہ السلام) اپنی معنوی اور روحانی خصوصیات کے باعث ہر طرح سے ترجیح پانے کے لائق تھے۔" [1] یوسف علیہ السلام کا بھائیوں کو معاف کردینا "یوسف (علیہ السلام) نے کہا، جاؤ ! آج میں نے تمہیں معاف کردیا۔ ماضی کی غلطی پر تمہارا مؤاخذہ نہیں کروں گا، اللہ بھی تمہیں معاف کر دے اور وہ تو بےحد رحم کرنے والا ہے۔ وہ لوگ کہ عظمت جن کا سرمایۂ افتخار بنادیا جاتا ہے، وہ ایسے ہی ہوتے ہیں ، کشادہ دل اور فراخ حوصلہ۔ فتح مکہ کے موقع پر کفار کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معاف کرنا "رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھیے ! اہل مکہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کیا کیا ستم نہ توڑے تھے، مگر جب فتح مکہ کے موقع پر وہ وقت آیا کہ کل کے سارے ظالم گردنیں
[1] ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی: تفسیر روح القرآن۔