کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 186
سیدنا ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور مالوں کو نہیں دیکھتا، وہ تو تمہارے دلوں اور اعمال کو دیکھتا ہے۔ “ [ مسلم، کتاب البر والصلۃ، باب تحریم ظلم المسلم۔۔ الخ : ٣٤؍٢٥٦٤ ] سیدنا ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اور جو شخص سوال سے بچنے کی کوشش کرتا ہے اللہ اسے (سوال کی مصیبت سے) بچا لیتا ہے اور جو بےنیازی اختیار کرے اللہ تعالیٰ اس کو بےنیاز کردیتا ہے اور جو صبر کا دامن پکڑتا ہے، اللہ اسے صبر کی توفیق دے دیتا ہے اور کوئی شخص ایسا عطیہ نہیں دیا گیا جو صبر سے زیادہ بہتر اور وسیع تر ہو۔ “ [ بخاری، کتاب الزکوۃ، باب الاستعفاف عن المسألۃ : ١٤٦٩۔ مسلم، کتاب الزکوۃ، باب فضل التعفف والصبر۔۔ الخ : ١٠٥٣ ]" [1] "حقیقت یہ ہے کہ جو بات اس آیت کے آخر میں فرمائی گئی ہے یعنی تقویٰ ، صبر اور احسان، یہ سورت کا مرکزی مضمون ہے۔ یہی بات سمجھانے کے لیے حضرت یوسف (علیہ السلام) کے تمام واقعات بیان کیے گئے۔ ان کا ہر عمل تقویٰ کی تصویر ہے۔ انھوں نے زندگی عزیمت اور صبر کے ساتھ گزاری اور ہر قدم اٹھانے اور ہر بات کہنے سے پہلے یقینا ان کو یہ مقام حاصل رہا ہے کہ وہ اپنے اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ انہیں دیکھ رہا ہے۔"[2] یوسف کی بابت بھائیوں کی ایک غلط فہمی دور ہونا "یاد ہوگا کہ برادرانِ یوسف کو جو حضرت یوسف (علیہ السلام) پر سب سے زیادہ غصہ تھا وہ اس بات پر تھا کہ ہمارے والد آخر یوسف ( علیہ السلام) کو ہم پر ترجیح کیوں دیتے ہیں ، ان کی تمام شفقت اور عنایت یوسف ( علیہ السلام) ہی کے لیے کیوں ہے، اس میں ایسی کیا بات ہے کہ ہمارے والد اسے زیادہ چاہتے ہیں حالانکہ ہم دس بھائی ہیں ۔ قبائلی زندگی کے حوالے سے اس شخص کو زیادہ عزت کی
[1] ابو نعمان سیف اللہ خالد :تفسیر ابونعمان سیف اللہ خالد :تفسیردعوة القرآن۔۔ [2] ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی: تفسیر روح القرآن۔