کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 185
سے پہلے اس کے ذہن میں یہ بات رہنی چاہیے کہ میں اپنے خدا کے سامنے ہوں اور اپنے خدا کو دیکھ رہا ہوں اور اگر اس مقام پر نہ پہنچ سکے تو اس بات کا یقین تو بہرحال رکھے کہ میرا اللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہا ہے۔ جو شخص ان مضبوط احساسات کے ساتھ زندگی گزارتا ہے وہ یقینا اللہ تعالیٰ کا مقرب ہوجاتا ہے۔ وہ جب تک دنیا میں ہے اس کے ہر عمل کے پیچھے اللہ تعالیٰ کی قوت کارفرما ہوتی ہے۔ اور جب وہ قیامت کے دن اٹھایا جائے گا تو کامرانیاں اس کے جلو میں چلیں گی اور فرشتے اس کو جنت کے دروازوں پر خوش آمدید کہیں گے۔" [1] ﴿اِنَّهٗ مَنْ يَّتَّقِ وَيَصْبِرْ فَاِنَّ اللّٰهَ لَا يُضِيْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِيْنَ﴾ اللہ تعالیٰ اچھے لوگوں کا اجر ضائع نہیں کرتا "اِنَّهٗ مَنْ يَّتَّقِ وَيَصْبِرْ فَاِنَّ اللّٰهَ لَا يُضِيْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِيْنَ : یعنی متقی اور صابر آدمی ہی اللہ کے نزدیک صفت احسان کا مستحق ہوتا ہے،۔ ۔ ۔ (اللہ تعالیٰ نے)ارشاد فرمایا : (لَيْسُوْا سَوَاءً مِنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ اُمَّةٌ قَاىِٕمَةٌ يَّتْلُوْنَ اٰيٰتِ اللّٰهِ اٰنَاء الَّيْلِ وَھُمْ يَسْجُدُوْنَ() يُؤْمِنُوْنَ باللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَيَاْمُرُوْنَ بالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُسَارِعُوْنَ فِي الْخَيْرٰتِ وَاُولٰىِٕكَ مِنَ الصّٰلِحِيْنَ () وَمَا يَفْعَلُوْا مِنْ خَيْرٍ فَلَنْ يُّكْفَرُوْهُ وَاللّٰهُ عَلِيْمٌ بِالْمُتَّقِيْن) [آل عمران : ١١٣ تا ١١٥ ] ” وہ سب برابر نہیں ۔ اہل کتاب میں سے ایک جماعت قیام کرنے والی ہے، جو رات کے اوقات میں اللہ کی آیات کی تلاوت کرتے ہیں اور وہ سجدے کرتے ہیں ۔ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے منع کرتے اور اچھے کاموں میں ایک دوسرے سے جلدی کرتے ہیں اور یہ لوگ صالحین سے ہیں ۔ اور وہ جو نیکی بھی کریں اس میں ان کی بےقدری ہرگز نہیں کی جائے گی اور اللہ متقی لوگوں کو خوب جاننے والا ہے۔ “ اور فرمایا : ﴿ لَنْ يَّنَال اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلٰكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰي مِنْكُمْ كَذٰلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰي مَا هَدٰىكُمْ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِيْنَ ﴾ [ الحج : ٣٧ ] ” اللہ کو ہرگز نہ ان کے گوشت پہنچیں گے اور نہ ان کے خون اور لیکن اسے تمہاری طرف سے تقویٰ پہنچے گا۔ “
[1] ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی: تفسیر روح القرآن۔