کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 184
" معلوم ایسا ہوتا ہے کہ پہلی ملاقاتوں میں وہ جب حضرت یوسف (علیہ السلام) کو دیکھتے تھے تو انہیں اس کے خدوخال میں یوسف ( علیہ السلام) کی جھلک محسوس ہوتی تھی، اس کے طوراطوار میں یوسف ( علیہ السلام) کا شبہ ہوتا تھا۔ لیکن وہ یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ شاہانہ لباس میں ملبوس جو شخص مصر جیسے متمدن ملک کے تخت پر بیٹھا حکومت کررہا ہے وہ یوسف ( علیہ السلام) ہوسکتا ہے۔ کہاں کنعان کا وہ کنواں جس میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کو پھینکا گیا تھا اور کہاں مصر کا تخت۔ ان کا تصور اتنی لمبی مسافت طے نہیں کرسکتا تھا۔ اس لیے ان کے ذہن میں اس کے یوسف ( علیہ السلام) ہونے کا خیال بھی پیدا ہوتا تھا تو وہ اسے جھٹک دیتے تھے۔ اب جیسے ہی حضرت یوسف (علیہ السلام) نے یوسف ( علیہ السلام) اور بن یامین کے بارے میں سوال کیا تو انہیں یقین ہوگیا کہ یہی یوسف ( علیہ السلام) ہے۔ اس لیے فوراً بول اٹھے کہ کیا واقعی آپ ہی یوسف ( علیہ السلام) ہیں ۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے تمام حجابات اٹھاتے ہوئے فرمایا کہ ہاں ، میں ہی یوسف ( علیہ السلام) ہوں اور یہ میرا بھائی ہے۔ تم مجھے جس حال میں دیکھ رہے ہو یہ سراسر اللہ تعالیٰ کا کرم اور اس کی عطا ہے۔ اس نے ہم پر احسان فرمایا اور یہ مقام اور منصب مجھے عطا ہوئے۔ چونکہ آپ پیغمبرانہ اخلاق کے مالک تھے اس لیے نہ تو کوئی ایسی بات فرمائی جس سے انہیں شرمندگی ہوتی اور نہ ایسی بات فرمائی جس سے خودپسندی کی بو آتی اور فخر کا اظہار ہوتا۔ اس لیے آپ (علیہ السلام) نے اپنی بات کہنے کی بجائے بطور اصول یہ بات فرمائی کہ اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ جو شخص بھی تقویٰ کا راستہ اختیار کرتا ہے یعنی وہ پوری طرح اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے سامنے ڈال دیتا ہے، اپنے آپ کو اس کے سپرد کردیتا ہے اور زندگی اس طرح گزارتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت تمام تعلقات پر غالب رہتی ہے۔ غیرمشروط اطاعت صرف اللہ تعالیٰ کی ہوتی ہے، زبان سے اسی کے احسانات کا ذکر ہوتا ہے۔ انگ انگ سے اس کے شکرکا اظہار ہوتا ہے اور اسے کے دیئے ہوئے مقصد زندگی کو منزل قرار دے کر اسی کی طرف سفر جاری رہتا ہے۔ اور جو اس راستے میں مشکلات پیش آتی ہیں انہیں اس راستے کی سنتیں سمجھ کر خندہ پیشانی سے برداشت کرتا ہے تو کوئی ایسا شخص ہو یا ایسے افراد اللہ تعالیٰ تعالیٰ ان کی مساعی کو نہ صرف قبول کرتا ہے بلکہ ان کے اجر وثواب کو کبھی ضائع نہیں کرتا۔ لیکن اس کے لیے لازمی شرط یہ ہے کہ تقویٰ اور صبر کا رشتہ احسان سے بندھا ہوا ہو۔ آدمی جو بھی نیکی کا کام کرے، اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت کرے، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کو حرز جان بنائے، ہر چھوٹے بڑے کام