کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 183
” اے عائشہ ! بیشک اللہ تعالیٰ مہربان و شفیق ہے اور وہ تمام معاملات میں مہربانی و شفقت ہی کو پسند کرتا ہے۔ “ [ بخاری، کتاب استتابۃ المرتدین، باب إذا عرض الذمی۔۔ الخ : ٦٩٢٧ ]" [1] اللہ کا ہر گنہگار جاہل ہے "۔ ۔ ۔ بھائیوں سے کہا کچھ اپنے کرتوت یاد بھی ہیں کہ تم نے یوسف کے ساتھ کیا کیا ؟ اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا کیا ؟ وہ نری جہالت کا کرشمہ تھا اسی لئے بعض سلف فرماتے ہیں کہ اللہ کا ہر گنہگار جاہل ہے۔ قرآن فرماتا ہے آیت ﴿ثُمَّ إِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِينَ عَمِلُوا السُّوءَ بِجَهَالَةٍ﴾ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ پہلی دو دفعہ کی ملاقات میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کو اپنے آپ کو ظاہر کرنے کا حکم اللہ نہ تھا۔ اب کی مرتبہ حکم ہوگیا۔ آپ نے معاملہ صاف کردیا۔ جب تکلیف بڑھ گئی ' سختی زیادہ ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے راحت دے دی اور کشادگی عطا فرما دی۔ جیسے ارشاد ہے کہ سختی کے ساتھ آسانی ہے یقینا سختی کے ساتھ آسانی ہے۔" [2] بھائیوں کا یوسف (علیہ السلام) کو پہچان لینا "بھائیوں نے یوسف (علیہ السلام) کے اس سوال سے انہیں پہچان لیا، اس لیے کہ وہ جانتے تھے کہ یوسف کا واقعہ ان کے علاوہ اور کوئی نہیں جانتا تھا، بےحد حیرت واستعجاب کا اظہار کرتے ہوئے کہا، کیا واقعی آپ ہی یوسف ہیں ؟ تو انھوں نے کہا کہ ہاں ! میں یوسف ہوں اور یہ میرا سگا بھائی بنیامین ہے، اللہ نے ہم پر احسان کیا ہے کہ آزمائشوں کا دور ختم ہوگیا، ایک مدت کی جدائی کے بعد دونوں بھائی مل گئے ہیں اور ذلت کے بعد عزت اور وحشت و تنہائی کے بعد انس و قربت نصیب ہوئی ہے۔ اس کے بعد انھوں نے سبب بیان کرتے ہوئے کہا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے ہر حال میں ڈرتا رہتا ہے اور تکلیفوں پر صبر کرتا رہتا ہے تو اللہ تعالیٰ ایسے اچھے لوگوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔" [3]
[1] ابو نعمان سیف اللہ خالد :تفسیر ابونعمان سیف اللہ خالد :تفسیردعوة القرآن۔۔ [2] ابن کثیر، أبو الفداء إسماعيل بن عمر بن كثير القرشي البصري ثم الدمشقي (المتوفى: 774هـ):تفسير القرآن العظيم۔ [3] ابو نعمان سیف اللہ خالد :تفسیر ابونعمان سیف اللہ خالد :تفسیردعوة القرآن۔۔