کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 182
طور پر بھی مزید کرم فرمائی کریں ۔ یقینا اللہ تعالیٰ صدقہ کرنے والوں کے اجر وثواب کو ضائع نہیں کرتا۔" [1] "بضاعۃِ مُزْجاۃ (کھوٹی پونجی) دراصل اس سامان کو کہا جاتا ہے جو قابل قبول نہ ہو۔ سو یہاں پر اس لفظ کے استعمال سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ لوگ غلے کی قیمت کے لئے اس مرتبہ نقدی کے بجائے کوئی ایسی جنس لے گئے تھے جس کی بازار میں کوئی خاص مانگ نہیں تھی اس لئے اس کو انہوں نے بضاعت مزجاۃ یعنی کھوٹی پونجی قرار دیا۔ " [2] یوسف علیہ السلام کا اپنے آپ کو بھائیوں پر ظاہر کرنا "اپنے خاندان والوں کی غربت و پریشانی اور اپنے باپ کے درد و غم کا حال جان کر یوسف (علیہ السلام) کا دل بھر آیا اور ان کی آنکھیں نم ہوگئیں ۔ اب قصہ کو مزید طول دینے کی تاب نہ لا سکے اور اپنے بھائیوں کو اپنی درد بھری داستان یاد دلاتے ہوئے کہا کہ تم نے یوسف اور اس کے بھائی بنیامین کے ساتھ نادانی کی وجہ سے ماضی میں جو ظلم و زیادتی کی تھی، کیا وہ تمہیں یاد ہے ؟ سیدنا یوسف (علیہ السلام) کا ظرف ملاحظہ فرمائیے کہ گو بھائیوں کو جتا دیا کہ تم نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ جو سلوک کیا اسے یاد کرو، مگر ساتھ ہی ان کے دکھے دل کو مزید زخمی نہیں کیا، ان کی معذرت و معافی اور شرمندگی و شرمساری سے پہلے ہی گویا انہیں معافی کی تسلی دے دی کہ یہ تم نے اس وقت کیا جب تم نادان تھے۔ یہ اصلاح اور تربیت کے انداز ہیں ، جہاں قدم قدم نرمی اور لمحہ لمحہ محبت کی فراوانی ہونی چاہیے۔ ہمدردی اور خیر خواہی کا جذبہ اتنا غالب ہو کہ انتقام اور نفرت کے سارے جذبے اس کے سامنے کمزور اور بےبس ہوجائیں ۔ معلوم ہوا نرم روی اور شستہ لہجہ دعوت کے میدان میں ایسا طریقہ ہے جو پتھر دل اور سخت طبیعت انسان کو بھی پگھلا کر مسحور کردیتا ہے، جیسا کہ سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :
[1] ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی: تفسیر روح القرآن۔ [2] مولانا اسحاق مدنی:تفسیر مدنی۔