کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 180
مال کا وافر حصہ جو تجارت کے لئے الگ کرلیا گیا ہو ابضع وبتضع بضاعۃ سرمایہ یاپونچی جمع کرنا ۔ الگ قرآن میں ہے ۔ ﴿ هذِهِ بِضاعَتُنا رُدَّتْ إِلَيْنا﴾ [يوسف/ 65] یہ ہماری پونجی بھی ہمیں واپس کردی گئی ہے ۔ ﴿ بِبِضاعَةٍ مُزْجاةٍ﴾ [يوسف/ 88] اور ہم تھوڑا سا سرمایہ لائے ہیں ۔ "التَّزْجِيَةُ: دَفْعُ الشّيء لينساق، كَتَزْجِيَةِ رديء البعير، وتَزْجِيَةِ الرّيح السّحاب، قال: يُزْجِي سَحاباً[النور/ 43] ، وقال: رَبُّكُمُ الَّذِي يُزْجِي لَكُمُ الْفُلْكَ فِي الْبَحْرِ [الإسراء/ 66] ۔" [1] ( ز ج و ) التزجیۃ کے معنی کسی چیز کو دفع کرنے کے ہیں تاکہ چل پڑے مثلا پچھلے سوار کا اونٹ کو چلانا یا ہوا کا بادلوں کو چلانا ۔ قرآن میں ہے : يُزْجِي سَحاباً [ النور/ 43]( اللہ ہی ) بادلوں کو ہنکاتا ہے رَبُّكُمُ الَّذِي يُزْجِي لَكُمُ الْفُلْكَ فِي الْبَحْرِ [ الإسراء/ 66] جو تمہارے لئے ( سمندروں میں ) جہازوں کو چلاتا ہے ۔ "والصَّدَقَةُ: ما يخرجه الإنسان من ماله على وجه القربة كالزّكاة، لكن الصدّقة في الأصل تقال للمتطوّع به، والزّكاة للواجب، وقد يسمّى الواجب صدقة إذا تحرّى صاحبها الصّدق في فعله. قال: خُذْ مِنْ أَمْوالِهِمْ صَدَقَةً [التوبة/ 103] ، وقال:إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ" [2] ( ص دق) الصدقۃ ( خیرات ) ہر وہ چیز جو انسان اپنے مال سے قرب الہی حاصل کرنے کے لئے دیتا ہے اور یہی معنی زکوٰۃ کے ہیں مگر صدقۃ اسے کہتے ہیں جو واجب نہ ہو ۔ اور کبھی واجب کو بھی صدقۃ سے موسوم کردیا جاتا ہے ۔ جب کہ خیرات دینے والا اس سے صدق یعنی صلاح وتقوی کا قصد کرے قرآن میں ہے : ۔ خُذْ مِنْ أَمْوالِهِمْ صَدَقَةً [ التوبة/ 103] ان کے مال میں سے زکوٰۃ قبول کرلو ۔ إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ [ التوبة/ 60] صدقات ( یعنی زکوٰۃ و خیرات ) تو مفلسوں کا حق ہے ۔
[1] أبو القاسم الحسين بن محمد المعروف بالراغب الأصفهانى (المتوفى: 502هـ): المفردات في غريب القرآن،صفحہ378ـ [2] أبو القاسم الحسين بن محمد المعروف بالراغب الأصفهانى (المتوفى: 502هـ): المفردات في غريب القرآن،صفحہ480۔