کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 179
ان آیات میں استعمال ہونے والے بعض الفاظ کی وضاحت و تحقیق "گزشتہ آیات میں بھی بعض جگہ آپ ( علیہ السلام) کے لیے عزیز کا لفظ استعمال ہوا۔ اس سے بعض لوگوں کو خیال پیدا ہوا ہے کہ عزیز حکومت مصر میں کسی منصب کا نام تھا جس پر زلیخا کا شوہر فائز تھا۔ اس کے مرجانے کے بعد حضرت یوسف (علیہ السلام) کا اس منصب پر تقرر ہوا۔ اس لیے آپ ( علیہ السلام) کو عزیز مصر کے خطاب سے یاد کیا جانے لگا لیکن بعض محققین کا خیال ہے کہ عزیز کسی منصب کا عنوان نہیں بلکہ ہر صاحب اقتدار کے لیے اس لفظ کا استعمال ہوتا تھا جیسے ہمارے یہاں ہر مقتدر آدمی کو سرکار کہہ کر مخاطب کرنے کا رواج رہا ہے۔" [1] "الضُّرُّ: سوءُ الحال، إمّا في نفسه لقلّة العلم والفضل والعفّة، وإمّا في بدنه لعدم جارحة ونقص، وإمّا في حالة ظاهرة من قلّة مال وجاه، وقوله: فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ[الأنبياء/ 84] ، فهو محتمل لثلاثتها" [2] (ضر کے معنی بدحالی کے ہیں خواہ اس کا تعلق انسان کے نفس سے ہو جیسے علم وفضل اور عفت کی کمی اور خواہ بدن سے ہو جیسے کسی عضو کا ناقص ہونا یا قلت مال وجاہ کے سبب ظاہری حالت کا برا ہونا ۔ اور آیت کریمہ :﴿ فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ﴾ [ الأنبیاء/ 84] اور جوان کو تکلیف تھی وہ دورکردی ۔ میں لفظ ضر سے تینوں معنی مراد ہوسکتے ہیں ۔) "البِضَاعَة: قطعة وافرة من المال تقتنى للتجارة، يقال: أَبْضَعَ بِضَاعَة وابْتَضَعَهَا. قال تعالى: هذِهِ بِضاعَتُنا رُدَّتْ إِلَيْنا [يوسف/ 65] وقال تعالى: بِبِضاعَةٍ مُزْجاةٍ [يوسف/ 88] " [3]
[1] ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی: تفسیر روح القرآن۔ [2] أبو القاسم الحسين بن محمد المعروف بالراغب الأصفهانى (المتوفى: 502هـ): المفردات في غريب القرآن،صفحہ503،المحقق: صفوان عدنان الداوديالناشر: دار القلم، الدار الشامية - دمشق بيروت ،الطبعة: الأولى - 1412 هـ۔ [3] أبو القاسم الحسين بن محمد المعروف بالراغب الأصفهانى (المتوفى: 502هـ): المفردات في غريب القرآن،صفحہ128ـ