کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 177
اور ضحاک نے کہا : روح اللہ سے مراد اللہ کی رحمت ہے۔ اِنَّهٗ لَا يَايْـــــَٔـسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْكٰفِرُوْنَ یہ اس بات پر دلیل ہے کہ ناامیدی گناہ کبیرہ ہے۔ " [1] "انھوں نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ وہ مصر جائیں اور یوسف اور اس کے بھائی بنیامین کے بارے میں پتا لگائیں اور اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہوں ۔ اس لیے کہ اس کی رحمت سے صرف کافر لوگ ناامید ہوتے ہیں ، جیسا کہ ارشاد فرمایا : ﴿ وَمَنْ يَّقْنَطُ مِنْ رَّحْمَةِ رَبِّهٖٓ اِلَّا الضَّالُّوْنَ ﴾ [ الحجر : ٥٦ ] ” اور گمراہوں کے سوا اپنے رب کی رحمت سے کون ناامید ہوتا ہے۔ “ سیدنا ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اگر مومن کو اس سزا اور عذاب کا (کماحقہ) علم ہوجائے جو اللہ کے ہاں (نافرمانوں کے لیے) ہے تو کوئی بھی اس کی جنت کی امید نہ رکھے اور اگر کافر کو اللہ کی رحمت کا (صحیح) علم ہوجائے جو اللہ کے پاس ہے تو اس کی جنت سے ناامید نہ ہو۔ “ [ مسلم، کتاب التوبۃ، باب فی سعۃ رحمۃ اللہ تعالیٰ وأنھا سبقت غضبہٗ : ٢٧٥٥ ] سیدنا صہیب (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے، اس کے ہر کام میں اس کے لیے خیر ہے اور یہ معاملہ صرف مومن کے لیے ہے، اگر اسے خوشی حاصل ہوتی ہے تو شکر ادا کرتا ہے اور یہ اس کے لیے بہتر ہوتا ہے اور اگر اسے تکلیف پہنچتی ہے تو صبر کرتا ہے اور اس میں بھی اس کے لیے خیر ہوتی ہے۔ “ [ مسلم، کتاب الزھد، باب المؤمن أمرہ کلہ خیر : ٢٩٩٩]"[2] زندگی میں پے درپے آنے والی مصیبتوں ، مشکلوں اور دشواریوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ حقیقی طورپر دنیا و آخرت کی تمام مشکلات کو دور کرنے والا اور تنگی کے بعد آسانیاں عطا کرنے والا اس کے سوا اور کوئی نہیں ۔ نا ہو نومید نومیدی زوال علم و عرفاں ہے امید مرد مومن ہے خدا کے رازدانوں میں
[1] القرطبی،ابو عبد اللّٰه ،محمد بن احمد بن ابی بكر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدين (المتوفى: 671هـ): الجامع لأحكام القرآن الشهيربتفسير القرطبی۔ [2] ابو نعمان سیف اللہ خالد : تفسیر ابونعمان سیف اللہ خالد :تفسیردعوة القرآن۔۔