کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 176
(اے میرے بیٹو ! جاؤ اور یوسف اور اس کے بھائی کی تلاش کی سرتوڑ کوشش کرو اور اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہونا۔ کیونکہ اللہ کی رحمت سے ناامید تو کافر لوگ ہی ہوا کرتے ہیں ) سیدنا یعقوب کابرادران یوسف کو یوسف وبنیامین کی تلاش کا حکم "۔ ۔ ۔ یہ آیت کریمہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ آپ کو حضرت یوسف (علیہ السلام) کی زندگی کا یقین تھا۔ اس صورت کئی صورتیں ہیں : یا تو خواب کے ذریعے، یا اللہ تعالیٰ نے بھیڑیے کو بولنے کی طاقت دی اور بھیڑیے نے بتایا جس طرح کہ واقعہ کی ابتدا میں ہے یا ملک الموت نے خبر دی کہ اس نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی روح کو قبض نہیں کیا اور یہ زیادہ ظاہر ہے۔ التحسس حواس کے ذریعے کسی چیز کو طلب کرنا ہے۔ یہ حس سے باب تفعل ہے یعنی اس آدمی کے پاس جاؤ جس نے تم سے تمہارا بھائی طلب کیا اور تم سے اسے لینے کا حیلہ اختیار کیا اور اس کے متعلق اور اس کے مذہب کے متعلق پوچھو اور روایت ہے کہ ملک الموت نے آپ کو کہا : اسے یہاں تلاش کرو ! اور اس نے مصر کی جانب اشارہ کیا۔ اور ایک قول کے مطابق حضرت یعقوب (علیہ السلام) سامان کی واپسی، بھائیوں کی قید اور کرامت کے اظہار کے ذریعے حضرت یوسف (علیہ السلام) پر آگاہ ہوئے اسی وجہ سے آپ نے انہیں مصر کی طرف ہی متو جہ کیا کسی اور طرف نہیں " [1] اللہ کی رحمت سے صرف کافر لوگ ناامید ہوتے ہیں " وَلَا تَايْـــــَٔـسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِ یعنی اللہ تعالیٰ کی کشادگی سے مایوس نہ ہو۔ یہ ابن زید کا قول ہے۔ مراد یہ ہے کہ مومن اللہ کی کشادگی کی امید رکھتا ہے اور کافر سختی میں ناامید ہوتا ہے۔ حضرت قتادہ
[1] القرطبی،ابو عبد اللّٰه ،محمد بن احمد بن ابی بكر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدين (المتوفى: 671هـ): الجامع لأحكام القرآن الشهيربتفسير القرطبی۔