کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 175
جواب دیا کہ میں بےصبری کر کے اللہ تعالیٰ کی آزمائش کی شکایت کسی دوسرے سے کروں تو تم مجھ کو صبر کی فہمائش کرو میں تو اپنے غم کا حال اسی پاک پروردگار سے عرض کرتا ہوں جس نے آزمائش کے طور کی یہ مصیبت سے میرے اوپر ڈالی ہے۔ ﴿ وَأَعْلَمُ مِنَ اللَّـهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ ﴾ حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کے قول کے موافق اس کا مطلب یہ ہے کہ اے میرے بیٹو تم کو معلوم نہ ہو تو نہ ہو مگر مجھ کو تو اللہ کی کریمی کی وصیت سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو خواب یوسف (علیہ السلام) کو دکھایا ہے اس کا ظہور میری آنکھوں کے سامنے ہوگا اور میری زندگی میں یوسف (علیہ السلام) ایک دفعہ سے ضرور ملے گا۔ صحیح بخاری میں ابوہریرہ (رض) کی روایت سے حدیث قدسی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿ انا عند ظن عبدی بی ﴾ ١ ؎ جس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص مثلاً کوئی التجا بارگاہ الٰہی میں پیش کر کے اللہ تعالیٰ کی جانب سے یہ نیک گمان دل میں رکھے گا کہ وقت مقررہ پر اس شخص کی وہ التجاضرور قبول ہوگی تو اللہ تعالیٰ اس کے اس نیک گمان کو ضرور پورا کرے گا۔ صحیح مسلم میں جابر بن عبد اللہ (رض) سے روایت ہے جس میں یہ ہے کہ آدمی کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہمیشہ نیک گمان رکھنا چاہیے ٢ ؎ ان حدیثوں کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ انبیاء کا گمان اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہمیشہ نیک ہوتا ہے اس لئے یعقوب (علیہ السلام) کو اللہ کی ذات سے توقع تھی کہ اللہ تعالیٰ انہیں یوسف (علیہ السلام) کے خواب کی تعبیر دکھاوے گا اس وا سطے وہ اللہ تعالیٰ سے ہر وقت یہ التجا کرتے تھے کہ یا اللہ تو اس جدائی کی مصیبت کو جلدی راحت سے بدل دے۔ بث کے معنے بڑی بھاری غم کا حال بیان کرنے کے ہیں ۔ ١ ؎ الترغیب ص ٢٦٢ ج ٢ الترغیب فی الرجاء و حسن الظن باللہ تعالیٰ۔٢ ؎ الترغیب ایضاً ۔" [1] ﴿ يٰبَنِيَّ اذْهَبُوْا فَتَحَسَّسُوْا مِنْ يُّوْسُفَ وَاَخِيْهِ وَلَا تَايْـــــَٔـسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِ ۭ اِنَّهٗ لَا يَايْـــــَٔـسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْكٰفِرُوْنَ ﴾
[1] حافظ محمد سید احمد حسن:احسن التفاسیر۔