کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 174
نہیں کی۔جیسا کہ ایک عورت کی بابت ہے چنانچہ"صحیحین میں حضرت انس (رضی اللہ عنہ) کی روایت سے جو حدیث ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک قبر کے پاس ایک عورت کو روتے ہوئے دیکھ کر منع کیا اس عورت نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نہیں پہچانا اور یہ کہنے لگی کہ میری جیسی مصیبت تم پر پڑے تو تم کو میرے دل کا حال معلوم ہو جب لوگوں نے اس عورت کو جتلایا کہ یہ اللہ کے رسول ہیں تو اس عورت نے اپنی بیقراری کی عذر خواہی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کی۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ بیقراری کے روکنے میں اور صبر کرنے میں اسی وقت بڑا اجر ہے جب کہ آدمی ابتداء مصیبت کے وقت صبر کر ١ ؎ ورنہ رفتہ رفتہ تو مصیبت کے بعد خود ہی آدمی کو ایک طرح کا قرار حاصل ہوجاتا ہے اس صحیح حدیث کے مضمون اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے حال کو ملا کر دیکھا جاتا ہے تو حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے حال میں کوئی بات ایسی نہیں پائی جاتی جس کو اعتراض کے طور پر ذکر کیا جائے پھر اس اعتراض کا جواب دیا جاوے کیوں کہ جب حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھیڑئیے کے کھا جانے اور بنیامین کے مصر میں قید ہوجانے کی خبریں حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو پہنچی تو ابتدائے مصیبت کے وقت حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے یہی فرمایا کہ صبر بہتر اور کافی ہے پھر بعد میں جس قدر رنج حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے ظاہر کیا ہے۔ صحیحین کی حضرت انس (رض) کی حدیث اور صحیح حدیثوں سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صاحبزادے ابراہیم کی وفات کے وقت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اس قدر رنج کرنا ثابت ہے۔ غرض حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے جس قدر رنج اور قلق کا ذکر قرآن شریف میں ہے اس میں کوئی بات ملت ابراہیم یا شریعت محمدی کے مخالف نہیں معلوت ہوتی اس لئے بعضے مفسروں نے یہاں کچھ کچھ اعتراض کر کے طرح طرح جوابات جو دئیے ہیں ان کو قرآن شریف کی تفسیر سے کچھ تعلق نہیں ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ جب یوسف (علیہ السلام) کے سوتیلے بھائیوں نے یعقوب (علیہ السلام) کو ان سخت لفظوں میں فہمائش کی جس کا ذکر اوپر گزرا تو یعقوب (علیہ السلام) نے ان کو یہ