کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 173
ہوگئے اور ان کی جدائی سے حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا رنج اور بڑھ گیا اور رنج کی کوئی حد باقی نہ رہی تو حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے جان لیا کہ دنیا میں عادت الٰہی ہمیشہ سے یوں ہی جاری ہے کہ دنیا کے ہر رنج کے ساتھ خوشی لگی ہوئی ہے۔ اسی واسطے حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اپنے دل کو تسکین فرمائی جس کا ذکر اس آیت میں ہے اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کے خواب اور اس خواب کی تعبیر کے سبب سے حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کی ذات سے توقع تھی کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو ہرگز بھیڑئیے نے نہیں کھایا اور اس خواب کی تعبیر تک ضرور یوسف (علیہ السلام) زندہ رہیں گے۔ آزمائش الٰہی کے طور پر کچھ عرصہ تک آنکھوں سے اوجھل ہوگئے ہیں پھر ضرور ملیں گے۔ اس لئے حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے یہ فرمایا کہ اللہ کی حکمت سے کچھ دور نہیں جو اللہ تعالیٰ روبیل یوسف بنیامین سب بچھڑے ہوؤں کو اکٹھا ملا دیوے آخر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی توقع کو پورا کیا اور سب بچھڑوں کو حسب مراد ملا دیا یہ روبیل حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے وہ بڑے بیٹے تھے جو بنیامین کے مصر میں رہ جانے کے بعد شرما کر کنعان نہیں آئے تھے اور مصر میں رہ گئے تھے۔ آیت ان مع العسر یسرا (٦: ٩٤) ۔ میں ہر رنج کے ساتھ خوشی کے لگے رہنے کا ایک ازلی وعدہ الٰہی ہے جس کا اثر یعقوب (علیہ السلام) کے دل پر تھا اور ہر ایماندار شخص کے دل پر بھی اس کا اثر ہونا چاہیے۔ یہ آیت اور اس مضمون کی روایتیں جو اوپر گزر چکی ہیں ٢ ؎ وہ گویا اس آیت کی تفسیر ہیں جس کا حاصل یہ ہے کہ یعقوب (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے ازلی وعدہ کے بھروسہ پر یہ کہا کہ اللہ کے علم اور حکمت سے کوئی چیز باہر نہیں ہے وہ اپنے علم و حکمت سے اس رنج کے بعد ضرور سامان خوشی کا کر دے گا اور شاید وہ سامان یہی ہو کہ وہ سب بچھڑوں کو ملادے۔" [1] ﴿قَالَ إِنَّمَا أَشْكُو بَثِّي وَحُزْنِي إِلَى اللَّهِ وَأَعْلَمُ مِنَ اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ ﴾ سیدنا یعقوب علیہ السلام کی بارگاہ الہ میں گزارش "سیدنا یعقوب علیہ السلام نے کہا کہ میں تو اپنے غم واندوہ کا حال اسی پاک پروردگار سے عرض کرتا ہوں جس نے آزمائش کے طور کی یہ مصیبت سے میرے اوپر ڈالی ہے۔ انہوں نے کوئی جزع فزع
[1] حافظ محمد سید احمد حسن:احسن التفاسیر،جلد3،191۔