کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 172
سیدنا یعقوب علیہ السلام پر مصیبت کا پہاڑاور ان کی حالت زار "سیدنا یعقوب علیہ السلام پر مصیبت کا پہاڑ اس طرح ٹوٹا کہ ایک بیٹاگم ہو کر بچھڑ گیا،ایک پر چوری کا الزام لگ کر بچھڑگیا اور ایک بیٹا ندامت و شرمندگی کے باعث داغ مفارقت دے گیا۔ یعقوب علیہ السلام کو یقین تھا کہ بنیامین چوری نہیں کر سکتا لیکن ظاہری حالات کے پیش نظر چاروناچار انہیں خاموشی اختیار کرناپڑی۔ "بھائیوں کی زبانی یہ خبر سن کر حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے وہی فرمایا جو اس سے پہلے اس وقت فرمایا تھا جب انہوں نے پیراہن یوسف خون آلود پیش کر کے اپنی گھڑی ہوئی کہانی سنائی تھی کہ صبر ہی بہتر ہے۔ آپ سمجھے کہ اسی کی طرح یہ بات بھی ان کی اپنی بنائی ہوئی ہے بیٹوں سے یہ فرما کر اب اپنی امید ظاہر کی جو اللہ سے تھی کہ بہت ممکن ہے کہ بہت جلد اللہ تعالیٰ میرے تینوں بچوں کو مجھ سے ملا دے یعنی حضرت یوسف (علیہ السلام) کو بنیامین کو اور آپ کے بڑے صاحبزادے روبیل کو جو مصر میں ٹھر گئے تھے اس امید پر کہ اگر موقعہ لگ جائے تو بنیامین کو خفیہ طور نکال لے جائیں یا ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ خود حکم دے اور یہ اس کی رضامندی کے ساتھ واپس لوٹیں ۔ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ علیم ہے میری حالت کو خوب جان رہا ہے۔ حکیم ہے اس کی قضا وقدر اور اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔ اب آپ کے اس نئے رنج نے پرانا رنج بھی تازہ کردیا اور حضرت یوسف کی یاد دل میں چٹکیاں لینے لگی۔ حضرت سعید بن جبیر (رح) فرماتے ہیں انا للہ الخ پڑھنے کی ہدایات صرف اسی امت کو کی گئی ہے اس نعمت سے اگلی امتیں مع اپنے نبیوں کے محروم تھیں ۔ دیکھئے حضرت یعقوب (علیہ السلام) بھی ایسے موقعہ پر آیت ﴿ يٰٓاَسَفٰى عَلٰي يُوْسُفَ وَابْيَضَّتْ عَيْنٰهُ مِنَ الْحُزْنِ فَهُوَ كَظِيْمٌ﴾( یوسف :84) کہتے ہیں ۔ آپ کی آنکھیں جاتی رہی تھیں ۔ غم نے آپ کو نابینا کردیا تھا اور زبان خاموش تھی۔ مخلوق میں سے کسی شکایت وشکوہ نہیں کرتے تھے۔ غمگین اور اندوہ گین رہا کرتے تھے۔" [1] " حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو پہلے تو فقط حضرت یوسف (علیہ السلام) کی جدائی کا رنج تھا جب حضرت یوسف (علیہ السلام) کے چھوٹے بھائی بنیامین بھی حضرت یعقوب (علیہ السلام) سے جدا
[1] ابن کثیر، أبو الفداء إسماعيل بن عمر بن كثير القرشي البصري ثم الدمشقي (المتوفى: 774هـ):تفسير القرآن العظيم۔