کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 17
اس سورت کا صرف یہی ایک نام ہے۔ یہ سورت مکی ہے ، جو سورة ہود کے بعد اورسورة الحجر سے پہلے نازل ہوئی ہے۔ اور جمہور کے قول کے مطابق ترتیب نزول کے اعتبار سے اس کا نمبر ترپن ہے۔" [1] اس(سورت) کی ایک سو گیارہ آیات ہیں ۔۔ ۔ " [2]
"۔ ۔ ۔اور ایک ہزارسات سو چھہتر کلمات اور سات ہزار ایک سو چھیانوے حروف ہیں ۔" [3]
لفظ ' یوسف' قرآن مجید میں چھبیس مرتبہ استعمال ہواہے ۔چوبیس مرتبہ اسی سورة میں ، ایک بار سورة انعام(کی آیت نمبر 84) میں اور ایک بار سورة مومن(کی آیت نمبر 34) میں "یوسف عبری زبان کانام ہے۔عربی میں اس کا ترجمہ 'مزید'ہے۔ان کی پیدائش کے وقت ماں نے کہاتھاکہ اللہ مجھے اور بھی بیٹادےگا۔ " [4]
فضائل
"اس سورت کی فضلیت میں ایک حدیث وارد ہوئی ہے۔ کہ اپنے ماتحتوں کو سورة یوسف سکھاؤ۔ جو مسلمان اسے پڑھے یا اسے اپنے گھر والوں کو سکھائے یا اپنے ماتحت لوگوں کو سکھائے۔ اس پر اللہ تعالیٰ سکرات موت آسان کرتا ہے اور اسے اتنی قوت بخشتا ہے کہ وہ کسی مسلمان سے حسد نہ کرے۔
[1] وَهِيَ مَكِّيَّةٌ عَلَى الْقَوْلِ الَّذِي لَا يَنْبَغِي الِالْتِفَاتُ إِلَى غَيْرِهِ. وَقَدْ قِيلَ: إِنَّ الْآيَاتِ الثَّلَاثَ مِنْ أَوَّلِهَا مَدَنِيَّةٌ. قَالَ فِي «الْإِتْقَانِ» : وَهُوَ وَاهٍ لَا يُلْتَفَتُ إِلَيْهِ.نَزَلَتْ بَعْدَ سُورَةِ هُودٍ، وَقَبْلَ سُورَةِ الْحِجْرِ.وَهِيَ السُّورَةُ الثَّالِثَةُ وَالْخَمْسُونَ فِي تَرْتِيبِ نُزُولِ السُّوَرِ عَلَى قَوْلِ الْجُمْهُورِ. محمد الطاهر بن محمد بن محمد الطاهر بن عاشور التونسي (المتوفى : 1393هـ):التحرير والتنوير «تحرير المعنى السديد وتنوير العقل الجديد من تفسير الكتاب المجيد»، جلد12،صفحہ197۔
[2] السيوطي ،عبد الرحمن بن أبي بكر، جلال الدين (المتوفى: 911هـ):الدر المنثور۔
[3] پروفیسر محمد سعید احمد عاکف :تفسیر ابن عباس ۔
[4] قاضی محمدسلیمان سلمان منصورپوری: الجمال والکمال،ص58،59۔ مکتبہ اسلامیہ۔