کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 169
فرمایا جو شخص درگزر کی عادت ڈالے تو آخر کو اس کی عزت بڑھتی ہے ١ ؎ [1]اس حدیث کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ یوسف (علیہ السلام) نے اپنے بھائیوں سے چوری کا الزام سن کر درگزر کے طور پر اس الزام کا کچھ جواب جو نہیں دیا تو اللہ تعالیٰ نے اس درگزر کے بدلے میں یوسف (علیہ السلام) کی اس قدر عزت بڑھائی کہ یوسف (علیہ السلام) کے ان ہی سوتیلے بھائیوں کو آخر ﴿ تَاللَّـهِ لَقَدْ آثَرَكَ اللَّـهُ عَلَيْنَا﴾ کہنا پڑا جس کا مطلب یہ ہے کہ یوسف (علیہ السلام) کے سوتیلے بھائیوں نے قسم کھا کر یوسف (علیہ السلام) کی عزت کو تسلیم کیا۔"[2] "بھائی کے شلیتے میں سے جام کا نکلنا دیکھ کر بات بنادی کہ دیکھو اس نے چوری کی تھی اور یہی کیا اس کے بھائی یوسف نے بہی ایک مرتبہ اس سے پہلے چوری کرلی تھی۔ وہ واقعہ یہ تھا کہ اپنے نانا کا بت چپکے سے اٹھا لائے تھے اور اسے توڑ دیا تھا۔ یہ بھی مروی ہے کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی ایک بڑی بہن تھیں ، جن کے پاس اپنے والد اسحاق (علیہ السلام) کا ایک کمر پٹہ تھا جو خاندان کے بڑے آدمی کے پاس رہا کرتا تھا۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) پیدا ہوتے ہی اپنی ان پھوپھی صاحبہ کی پرورش میں تھے۔ انہیں حضرت یوسف (علیہ السلام) سے کمال درجے کی محبت تھی۔ جب آپ کچھ بڑے ہوگئے تو حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے آپ کو لے جانا چاہا۔ بہن صاحبہ سے درخواست کی۔ لیکن بہن نے جدائی و ناقابل برداشت بیان کر کے انکار کردیا۔ ادھر آپ کے والد صاحب حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے شوق کی بھی انتہا نہ تھی، سر ہوگئے۔ آخر بہن صاحبہ نے فرمایا اچھا کچھ دنوں رہنے دو پھر لے جانا۔ اسی اثنا میں ایک دن انہوں نے وہی کمر پٹہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے کپڑوں کے نیچے چھپا دیا، پھر تلاش شروع کی۔ گھر بھر چھان مارا، نہ ملا، شور مچا، آخر یہ ٹھری کہ گھر میں جو ہیں ، ان کی تلاشیاں لی جائیں ۔ تلاشیاں لی گئیں ۔ کسی کے پاس ہو تو نکلے آخر حضرت یوسف (علیہ السلام) کی تلاشی لی گئی، ان کے پاس سے برآمد ہوا۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو خبر دی گئی۔ اور ملت ابراہیمی کے قانون کے مطابق آپ اپنی پھوپھی کی تحویل میں کر دئے گئے۔ اور پھوپھی نے اس طرح اپنے شوق کو پورا کیا۔ انتقال کے وقت تک حضرت یوسف (علیہ السلام)
[1] ١ ؎ الترغیب ص ١٨٤ ج ٢ الترغیب فی التواقع بحوالہ احسن التفاسیر جلد3،187۔ [2] حافظ محمد سید حسن: تفسیر احسن الفاسیر،جلد3،187۔