کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 168
یوسف علیہ السلام پر بھائیوں نے چوری کا الزام کیوں لگایا؟ اور اس الزام پر یوسف کا تحمل و برداشت " یوسف (علیہ السلام) کے سوتیلے بھائیوں نے جب دیکھا کہ بادشاہ مصر کا پیمانہ بنیامین کے سامان میں سے نکلا تو کہنے لگے کہ اس پر کیا موقوف ہے اگر اس نے چوری کی ہے تو کوئی زیادہ تعجب کی بات نہیں ہے اس کا ایک بھائی اور تھا اس نے بھی ایک مرتبہ چوری کی تھی اس چوری کی بابت مجاہد کہتے ہیں کہ یوسف (علیہ السلام) کی پھوپھی اسحاق (علیہ السلام) کی اولاد میں سب سے بڑی تھیں ۔ ایک کمر بند اسحاق (علیہ السلام) کا تھا اس کے وارث پہلے سے بڑی اولاد ہوتی آئی تھی اس لئے اس مرتبہ ان کی پھوپی اس کی وارث ہوئیں جب حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے گھر میں یوسف (علیہ السلام) پیدا ہوئے ان کی پھوپھی نے ان کی پرورش کی اور جان سے زیادہ انہیں چاہتی تھیں ۔ یوسف (علیہ السلام) کا ایک گھڑی آنکھ سے اوجھل ہونا ان پر شاق گزرتا تھا جب یوسف (علیہ السلام) کئی برس کے ہوگئے تو ان کے باپ نے اپنی بہن سے انہیں طلب کیا کہ اب یوسف (علیہ السلام) کو مجھے دے دو اپنے پاس سے اس کا علیحدہ ہونا مجھے گوارا نہیں ہے ان کی پھوپھی نے کہا یہ بات تو ہو نہیں سکتی میں اس کو ہرگز نہیں چھوڑوں گی تم اسے چند روز اور میرے پاس رہنے دو ۔ اس سے میرا غم غلط ہوتا ہے اور میرے دل کو اس سے تسکین ہوتی ہے جب یعقوب (علیہ السلام) گھر میں سے باہر آئے تو ان کی بہن نے وہ کمر بند یوسف (علیہ السلام) کی کمر سے باندھ دیا اور یہ بات اوڑا دی کہ کمر بند گم ہوگیا ہے دیکھو کس نے لیا ہے غرض کہ کمر بند کی تلاش ہونے لگی اور گھر میں ہر شخص کی جامہ تلاشی ہوئی جب یوسف (علیہ السلام) کی باری آئی تو ان کی کمر سے وہ پٹکا نکلا اس پر یعقوب (علیہ السلام) کی بہن نے یعقوب (علیہ السلام) سے کہا کہ اب یہ لڑکا موافق تمہارے دین و آئین کے میرا ہے جو چاہوں سو کروں حضرت یعقوب نے بھی کہہ دیا کہ ہاں تمہارا ہے جو تم چاہے کرو تمہیں اختیار ہے۔ غرض کہ یوسف (علیہ السلام) کی پھوپھی نے ایک برس تک یوسف (علیہ السلام) کو اس حیلہ سے روک رکھا اسی بات کا طعنہ یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے یوسف (علیہ السلام) کو دیا کہ بنیامین نے اگر چوری کی تو کونسا تعجب ہوگیا اس کے بھائی نے بھی تو چوری کی تھی مگر یوسف (علیہ السلام) نے ان کی باتوں کا کچھ ظاہر میں جواب نہ دیا اور دل میں کہا کہ تم بڑے شریر ہو تمہارے قول و فعل سے خدا ہی خوب واقف ہے اور وہی جانتا ہے جو کچھ تم کہہ رہے ہو آیا صحیح کہہ رہے ہو یا غلط۔ صحیح مسلم اور ترمذی میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے