کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 167
تفسیر وبیان آیات از 77تا87﴿ قَالُوا إِنْ يَسْرِقْ. . . إِلَّا الْقَوْمُ الْكَافِرُونَ ﴾آیات تک کی تفسیر چوری کے الزام پر برادرانِ یوسف کا یوسف اور بنیامین کی کردارکشی کرنا "برادرانِ یوسف نے جب دیکھا کہ بن یامین چوری کے جرم میں ماخوذ ہوگیا ہے تو انہیں خیال پیدا ہوا کہ عزیز مصر بن یامین کی چوری سے یقینا یہ تأثر لے گا کہ ہم سب بدقماش لوگ ہیں ۔ ایک بھائی اگر چوری میں پکڑا جاتا ہے تو باقی بھائیوں کے بارے میں کیا کہا جاسکتا ہے کہ وہ کس طرح کی خصلتوں کے مالک ہیں ۔ چناچہ انھوں نے اپنی براءت کرتے ہوئے ایک ایسی بات کہی جو انتہائی غلط بھی تھی اور نازیبا بھی۔ کہا سرکار ! آپ ہمارے بارے میں بدگمانی نہ کیجیے، ہم خاندانی لوگ ہیں اور ہم اس طرح کی رذیل حرکت کبھی نہیں کرسکتے۔ یہ لڑکا ہمارا حقیقی بھائی نہیں ہے، اس لیے یہ خاندانی کردار کا حامل بھی نہیں ہے۔ یہ ہمارا سوتیلا بھائی ہے اس نے یہ خصلتیں اپنی ماں سے لی ہیں ۔ اس کا ایک اور بھائی بھی اسی طرح چوری کے جرم میں پکڑا گیا تھا تو اس نے اگر یہ حرکت کی ہے تو یہ دودھ کا اثر ہے، کوئی نئی بات نہیں ۔ البتہ آپ اسے ہمارا بھائی سمجھ کر ہمارے بارے میں کوئی بری رائے قائم نہ کیجیے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے جب سنا کہ وہ ان پر چوری کا الزام لگا رہے ہیں تو انہیں یقینا اس سے دلی اذیت ہوئی لیکن وہ اسے دل ہی میں پی گئے، کوئی ایسی بات زبان پہ لانا گوارا نہ کیا جس سے ان بھائیوں کو شبہ ہوتا کہ یہی یوسف ( علیہ السلام) ہے۔ البتہ اپنے جی میں یہ ضرور کہا کہ تم بہت بدقماش اور بدخصلت لوگ ہو۔ دوسروں پر بےسروپا بہتان باندھتے ہو، خود ظلم کرتے ہو لیکن اس کا احساس تک نہیں رکھتے۔ رہی یہ بات کہ جو تم کہہ رہے ہو اس کی حقیقت کیا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے بارے میں خوب جانتا ہے کہ کس نے چوری کی اور کون بہتان باندھ رہا ہے تو بجائے انہیں سرزنش کرنے کے انہیں عزت سے واپس جانے کی اجازت دے دی۔ اس سے حضرت یوسف (علیہ السلام) کے ظرف کی بلندی اور اعلیٰ اخلاق کا اندازہ ہوتا ہے۔" [1]
[1] ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی : روح القرآن۔