کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 166
فرما لیں جہاں ہم تھے اور اس قافلہ سے بھی پوچھ لیں جس کے ساتھ ہم آئے ہیں ، اور یقیناً ہم بالکل سچے ہیں۔ |83| 12 (یعقوب علیہ السلام نے) کہا یہ تو نہیں ، بلکہ تم نے اپنی طرف سے بات بنالی، پس اب صبر ہی بہتر ہے۔ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب کو میرے پاس ہی پہنچا دے۔ وه ہی علم وحکمت والا ہے۔ |84| 12 پھر ان سے منھ پھیر لیا اور کہا ہائے یوسف! ان کی آنکھیں بوجہ رنج وغم کے سفید ہو چکی تھیں اور وه غم کو دبائے ہوئے تھے۔ |85| 12 بیٹوں نے کہا واللہ! آپ ہمیشہ یوسف کی یاد ہی میں لگے رہیں گے یہاں تک کہ گھل جائیں یا ختم ہی ہو جائیں۔ |86| 12 انہوں نے کہا کہ میں تو اپنی پریشانیوں اور رنج کی فریاد اللہ ہی سے کر رہا ہوں ، مجھے اللہ کی طرف سے وه باتیں معلوم ہیں جو تم نہیں جانتے۔ |87| 12 میرے پیارے بچو! تم جاؤ اور یوسف (علیہ السلام) کی اور اس کے بھائی کی پوری طرح تلاش کرو اور اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو۔ یقیناً رب کی رحمت سے ناامید وہی ہوتے ہیں جو کافر ہوتے ہیں۔ ان آیات میں استعمال ہونے والے بعض الفاظ کی وضاحت اور تحقیق تسویل کا مفہوم " سَوَّلَت کا مصدر تسویل ہے۔ یہ تزیین اور تسہیل کے لیے بولا جاتا ہے۔" [1] "يٰبَنِيَّ اذْهَبُوْا فَتَحَسَّسُوْا ۔۔ : ” بَنِیْنَ “ ” اِبْنٌ“ کی جمع ہے، یاء کی طرف مضاف ہوا تو نون گرگیا، یاء کو یائے متکلم میں ادغام کرکے آخر میں نصب دے دی۔ ” تَحَسَّسَ “ کا معنی ہے کسی چیز کو باریکی، حکمت اور صبر کے ساتھ بذریعۂ حواس تلاش کرنا۔ (الوسیط) ” من روح اللّٰه “ ” رَوْحٌ“ کا اصل معنی سانس لینا ہے، کہا جاتا ہے ” أَرَاحَ الإِْنْسَانُ “ ” انسان نے سانس لیا۔ “ (مفردات) مراد اللہ کی طرف سے کشادگی و رحمت ہے، گلا گھٹ جانے اور سانس بند ہونے کے بعد سانس آنے میں جو راحت ولذت ہے وہ اللہ کی رحمت کا ایک نمونہ ہے، " [2]
[1] ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی روح القرآن۔ [2] حافظ عبد السلام بھٹوی: