کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 163
"حضرت یوسف ( علیہ السلام) نے کٹورا رکھوانے کا یہ فعل اپنے بھائی کی رضا مندی سے اور اس کے علم میں لا کر کیا ہوگا جیسا کہ اوپر والی آیت سے اندازہ ہوتا ہے واللہ اعلم۔"[1] "جب یہ لوگ وہاں سے کچھ دور نکل گئے تو یوسف (علیہ السلام) کے خدمت گاروں نے وہاں سقایتہ کا پتہ نہ پایا دل میں متفکر ہوئے اور یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں کو جو ابھی ابھی غلہ لے کر واپس چلے تھے پکارنے لگے کہ اے قافلہ والو ٹھہر جاؤ تم چور معلوم ہوتے ہو" [2] ﴿ قَالُوْا وَاَقْبَلُوْا عَلَيْهِمْ مَّاذَا تَفْقِدُوْنَ. قَالُوْا نَفْقِدُ صُوَاعَ الْمَلِكِ وَلِمَنْ جَاۗءَ بِهٖ حِمْلُ بَعِيْرٍ وَّاَنَا بِهٖ زَعِيْمٌ﴾ (انہوں نے ان کی طرف منھ پھیر کر کہا کہ تمہاری کیا چیز کھوئی گئی ہے؟جواب دیا کہ شاہی پیمانہ گم ہے جو اسے لے آئےاسے ایک اونٹ کے بوجھ کا غلہ ملے گا۔ اس وعدے کا میں ضامن ہوں ) برادران یوسف پر چوری کا الزام اور ان کا اس پررد عمل "یہ آواز سن کر وہ لوگ پریشان ہوئے اور پھر کر دریافت کیا کہ کیا چیز چوری ہوگئی ہے انہوں نے جواب دیا کہ بادشاہ کا سقایۃ نہیں ملتا اسی کو ڈھونڈ رہے ہیں ۔ پھر منادی نے یہ بھی کہا کہ جو شخص اس کا پتہ لگا دے گا اسے غلہ کا ایک اونٹ کا بوجھ بادشاہ کی طرف سے ملے گا اور ہم اس کے ضامن ہیں ۔ صحیح بخاری و مسلم میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ملک عراق سے شام کے ملک کے سفر میں ابراہیم (علیہ السلام) کا گزر ایک ظالم بادشاہ کے شہر پر سے ہوا۔ اس بادشاہ کی یہ عادت تھی کہ مسافروں کی خوبصورت عورتوں کو زبردستی بدکاری کی غرض سے پکڑوا لیا کرتا تھا اور اگر یہ سن لیتا تھا کہ عورت کے ساتھ اس کا شوہر بھی ہے تو اس مرد کو قتل کرا دیتا تھا اس سفر میں ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ آپ کی بی بی سارہ بھی تھیں جو حسن و جمال میں مشہور ہیں ان کے حسن و جمال کے سبب سے جب اس ظالم بادشاہ کے سپاہی حضرت سارہ کو پکڑنے آئے تو اس ظالم کے
[1] محمد عبدہ الفلاح : تفسیر اشرف الحواشی۔ [2] حافظ محمد سید احمد حسن :احسن التفاسیر،جلد3،184۔