کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 160
۔ ۔ ۔ امام مالک نے حمید بن قیس مکی سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جعفر بن ابی طالب کے دو بیٹے لائے گئے تو آپ نے ان کی دائی کو فرمایا : ” کیا بات ہے میں ان دونوں کو کمزور دیکھتا ہوں ؟ “ تو دائی نے کہا : یارسول اللہ ! ان دونوں کو جلدی نظر لگ جاتی ہے، اور آپ نے ہمیں ان کو دم کرنے سے نہ روکا البتہ ہم نہیں جانتے کہ آیا وہ موافق آتا ہے یا نہیں ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” ان کو دم کرو کیونکہ اگر تقدیر سبقت لے گئی تو نظر سبقت لے جائے گی۔ “ یہ حدیث منقطع ہے۔ البتہ حضرت اسماء بنت عمیس خثعمی والی روایت محفوظ ہے جو انہوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کی ہے۔ اس میں ہے کہ دم ان چیزوں میں سے ہے جن کے ذریعے مصیبت کو روکا جاتا ہے اور نظر انسان میں اثر بھی کرتی ہے اور تکلیف بھی دیتی ہے یعنی اسے کمزور کرتی ہے اور اس میں نقاہت پیدا کرتی ہے : اور یہ اللہ تعالیٰ کی قضا اور تقدیر سے ہے اور کہا جاتا ہے کہ نظر بڑوں کی نسبت چھوٹوں میں جلدی اثر کرتی ہے۔ واللہ اعلم۔ ۔ ۔ ۔حدیث ابوامامہ میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نظر لگانے کو اس آدمی کے لیے غسل کرنے کا حکم فرمایا ہے جس کو نظر لگی ہے اور اس روایت میں دم کا حکم ارشاد فرمایا ہے۔ “ ہمارے (مالکیہ) علماء نے کہا ہے : دم اس صورت میں ہوگا جب نظر لگانے والے کا پتہ نہ ہو، اور جب لگانے والے کا پتہ چل جائے تو پھر حدیث ابوامامہ کے مطابق اسے وضو کا حکم دیا جائے گا۔ واللہ اعلم۔" [1] آیات از69تا76﴿ وَلَمَّا دَخَلُوا. . . وَفَوْقَ كُلِّ ذِي عِلْمٍ عَلِيمٌ﴾ ﴿وَلَمَّا دَخَلُوا عَلَى يُوسُفَ آوَى إِلَيْهِ أَخَاهُ قَالَ إِنِّي أَنَا أَخُوكَ فَلَا تَبْتَئِسْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (69) فَلَمَّا جَهَّزَهُمْ بِجَهَازِهِمْ جَعَلَ السِّقَايَةَ فِي رَحْلِ أَخِيهِ ثُمَّ أَذَّنَ مُؤَذِّنٌ أَيَّتُهَا الْعِيرُ إِنَّكُمْ لَسَارِقُونَ (70) قَالُوا وَأَقْبَلُوا عَلَيْهِمْ مَاذَا تَفْقِدُونَ (71) قَالُوا نَفْقِدُ صُوَاعَ الْمَلِكِ
[1] القرطبی،ابو عبد اللّٰه ،محمد بن احمد بن ابی بكر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدين (المتوفى: 671هـ): الجامع لأحكام القرآن الشهيربتفسير القرطبی،جلد9،صفحہ226،227۔