کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 159
نظر لگنے سے پناہ اور اس کا علاج " عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ کَانَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَوِّذُ الْحَسَنَ وَالْحُسَيْنَ وَيَقُولُ إِنَّ أَبَاکُمَا کَانَ يُعَوِّذُ بِهَا إِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ أَعُوذُ بِکَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ مِنْ کُلِّ شَيْطَانٍ وَهَامَّةٍ وَمِنْ کُلِّ عَيْنٍ لَامَّةٍ" (ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حسن و حسین پر یہ کلمات پڑھ کر پھونکا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ تمہارے باپ (ابراہیم) بھی اسماعیل و اسحاق پر یہ کلمات پڑھ کر دم کیا کرتے تھے (أَعُوذُ بِکَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ مِنْ کُلِّ شَيْطَانٍ وَهَامَّةٍ وَمِنْ کُلِّ عَيْنٍ لَامَّةٍ ) ترجمہ میں اللہ تعالیٰ کے مکمل کلمات کے ذریعہ ہر شیطان و جاندار اور ہر ضرررساں نظر کے شر سے پناہ مانگتا ہوں ۔ ) [1] "ہر مسلمان پر لازم ہے کہ کب اسے کوئی چیز اچھی لگے تو وہ بارک اللہ فیہ کہے کیونکہ جب وہ برکت کی دعا کرے گا تو لازمی طور پر برائی کو اس سے ہٹالیا جائے گا۔ کیا آپ حضرت عامر کو کہے جانے والے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس ارشاد کو نہیں دیکھتے : ألا برکت تو نے بارک اللہ فیہ کیوں نہ کہا۔ یہ روایت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جب نظر لگانے والا بارک اللہ فیہ کہہ دیتا ہے تو نظر نہ لگتی ہے اور نہ ہی نقصان کرتی ہے۔ البتہ اگر وہ یہ الفاظ نہ کہے تو پھر نظر لگ جاتی ہے۔ پوری تبریک یہ ہے : تبارک اللّٰه أحسن الخالقین اللَّھم بارک فیہ۔ ۔ ۔ ۔نظر لگانے والی کی نظر جب لگ جائے اور وہ بارک اللہ فیہ نہ کہے تو اسے غسل کرنے کا حکم دیا جائے گا اور اگر وہ انکار کرے تو اسے ایسا کرنے پر مجبور کیا جائے امرو جوب پر دلالت کرتا ہے، بالخصوص یہ امر، کیونکہ بعض اوقات نظر لگنے والے کی ہلاکت کا اندیشہ ہوتا ہے اور کسی کو بھی نہیں چاہیے کہ وہ اپنے بھائی کو ایسے کام سے روکے جس کی وجہ سے اس کے ایک بھائی کا فائدہ ہوسکتا ہے اور وہ نقصان سے بچ سکتا ہے بالخصوص اس صورت میں کہ جب وہ نقصان اس کی وجہ سے ہورہا ہو۔ ۔ ۔ ۔ جس آدمی کو اپنی آنکھ لگنے کا پتہ چل جائے اسے لوگوں میں جانے سے روک دیا جائے گا تاکہ لوگ اس کی تکلیف سے محفوظ رہیں ۔ ۔ ۔ ۔ واللہ اعلم۔
[1] صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 629 ۔