کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 158
کیوں نہ کہا بیشک نظر کا لگنا حق ہے تم اس کے لیے وضو کرو۔ “ حضرت عامر نے وضو کیا پھر وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ چلے گئے اور وہ بالکل تندرست تھے۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عامر کو کچھ اعضاء دھونے کا حکم دیا تو حضرت عامر نے اپنا چہرہ، ہاتھ، کہنیاں ، گھٹنے اور پاؤں کے اطراف اور ازار کے اندر جسم کا حصہ ایک برتن میں دھویا پھر اسے (غسالہ) کو حضرت سہیل کے اوپر بہادیا گیا تو حضرت سہیل نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ چلے گئے اور انہیں کوئی مسئلہ نہ رہا۔ حضرت سعد بن ابی وقاص ایک دن سوار ہوئے آپ کی طرف ایک عورت نے دیکھا تو کہا : تمہارا یہ امیر دونوں پہلوؤں میں پتلی اور نازک کمر والا ہے۔ آپ اپنے گھر واپس لوٹے تو گر پڑے آپ کو وہ بات بتائی گئی جو اس عورت نے کہی تو آپ نے اس کی طرف پیغام بھیجا اس نے آپ کے لیے غسل کیا۔ ان دونوں روایات سے معلوم ہوا کہ نظر کا لگنا حق ہے اور یہ آدمی کو مار ڈالتی ہے جس طرح نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے یہ علماء امت کا قول سنت ہے،) "نظر کا لگ جانا حق ہے۔ گھوڑ سوار کو یہ گرا دیتی ہے۔ پھر ساتھ ہی فرماتے ہیں کہ یہ میں جانتا ہوں اور میرا ایمان ہے کہ یہ تدبیر تقدیر میں ہیر پہیری نہیں کرسکتی۔ اللہ کی قضا کو کوئی شخص کسی تدبیر سے بدل نہیں سکتا۔ اللہ کا چاہا پورا ہو کر ہی رہتا ہے۔ حکم اسی کا چلتا ہے۔ کون ہے جو اس کے ارادے کو بدل سکے ؟ اس کے فرمان کو ٹال سکے ؟ اس کی قضا کو لوٹا سکے ؟ میرا بھروسہ اسی پر ہے اور مجھ پر ہی کیا موقوف ہے۔ ہر ایک توکل کرنے والے کو اسی پر توکل کرنا چاہیے۔ چناچہ بیٹوں نے باپ کی فرماں برداری کی اور اسی طرح کئی ایک دروازوں میں بٹ گئے اور شہر میں پہنچے۔ اس طرح وہ اللہ کی قضا کو لوٹا نہیں سکتے تھے ہاں حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے ایک ظاہری تدبیر پوری کی کہ اس سے وہ نظر بد سے بچ جائیں ۔ وہ ذی علم تھے، الہامی علم ان کے پاس تھا۔ ہاں اکثر لوگ ان باتوں کو نہیں جانتے۔ " [1]
[1] أبوالفداء، ابن کثیر الفداء إسماعيل بن عمر بن كثير القرشي البصري ثم الدمشقي (المتوفى: 774هـ):تفسير القرآن العظيم،جلد4،صفحہ400۔