کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 154
حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کا نام لینے کی بجائے بنیامین کے بھائی کے عنوان سے ان کو یاد کر کے ایک لطیف نکتہ کی طرف اشارہ کیا کہ ان دونوں کا آپس میں بھائی ہونے کے رشتے نے مجھے ان کی ایک سرنوشت (یعنی باپ سے جدائی اور فراق) کی وجہ سے پریشانی کردیا ہے۔ احتیاط کےظاہری اسباب کوبروئے کارلانا افراد کو ذمہ داری سونپنے سے پہلے افراد کے سابقہ اعتماداور لاضی کے کردارپر پر توجہ رکھنا ضروری ہے۔ کسی فرد کا برا ماضی ہی اس بات کیلئے کا فی ہے کہ اس فرد سے احتیاط کی جائے اور اس کے قول وقرار پر یقین نہ کیا جائے۔ افراد کے سوء سابقہ اور برے ماضی کی انہیں یادآوری کرانا اور اس پر اثر مرتب کرنا جائز ہے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کی جاسکے۔ گذرے ہوئے حوادث سے عبرت حاصل کرنا ضروی ہے تاکہ آئندہ اس جیسے واقعات سے محفوظ رہا جائے۔ تاریخ سے عبرت حاصل کرنے کی اہمیت کی طرف بھی کنایہ ہے۔ افراد کو کسی شے یا چیز کی حفاظت کرنے میں مؤثر جاننا ، شرک کا موجب نہیں بنتا اور یہ توکل الہی اور مقام نبوت کے منافی نہیں ہے۔ رحم و دلسوزی کی اہمیت اللہ تعالیٰ کو بہترین حافظ و نگہبان قراردینے کے بعد اللہ عز وجل کی توصیف " ارحم الراحمین " سے کرنا گویا اس بات کو بتاتا ہے کہ ان دو صفتوں کے درمیان ارتباط اور گہرا تعلق ہے ۔ یعنی کیونکہ وہ ارحم الراحمین ہے اسی وجہ سے بہترین محافظ بھی ہے۔ انسانوں کی امانتداری کرنا اور اس امانت کی حفاظت پر پورا اترناان کے رحم ودلسوزی کے ساتھ مربوط ہے _ رحم و دلسوزی کا نہ ہونا، لوگوں سے خیانت کرنے کا سبب بنتا ہے _ یعقوب علیہ السلام کابیان حلفی پر اعتماد کا اظہار سیدنا یعقوب علیہ الصلوة والسلام نے ان سے فرمایا :" یعقوب (علیہ السلام) نے کہا! میں تو اسے ہرگز ہرگز تمہارے ساتھ نہ بھیجوں گا جب تک کہ تم اللہ کو بیچ میں رکھ کر مجھے قول وقرار نہ دو