کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 153
امیرالمومنین ! رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، میرے اس بچے کا واقعہ عجیب و غریب ہے ، اس کی ماں کے فوت ہونے کے بعد اس کی ولادت ہوئی ہے ۔ یہ سن کر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ” پوراواقعہ بیان کرو۔ وہ شخص عرض کرنے لگا : اے امیر المومنین ! رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں جہاد کے لئے جانے لگا تو اس کی والدہ حاملہ تھی، میں نے جاتے وقت دعا کی : اے اللہ ! عزوجل میری زوجہ کے پیٹ میں جو حمل ہے میں اسے تیرے حوالے کرتا ہوں ، تو ہی اس کی حفاظت فرمانا۔ یہ دعاکرکے میں جہاد کے لئے روانہ ہوگیا، جب میں واپس آیا تو مجھے بتایا گیا کہ میری زوجہ کا انتقال ہوگیا ہے، مجھے افسوس ہوا۔ ایک رات میں نے اپنے چچا زاد بھائی سے کہا : مجھے میری بیوی کی قبرپرلے چلو۔ چناچہ ہم جنت البقیع میں پہنچے اور اس نے میری بیوی کی قبر کی نشاندہی کی ۔ جب ہم وہاں پہنچے تو دیکھا کہ قبر سے روشنی کی کرنیں باہر آرہی ہیں ۔ میں نے اپنے چچا زاد بھائی سے کہا : یہ روشنی کیسی ہے ؟ اس نے جواب دیا : اس قبر سے ہر رات اسی طرح روشنی ظاہر ہوتی ہے، نہ جانے اس میں کیا راز ہے ؟ جب میں نے یہ سنا تو ارادہ کیا کہ میں ضرور اس قبر کو کھود کر دیکھو گا۔ چناچہ میں نے پھاؤڑا منگوایا اور ابھی قبر کھودنے کا ارادہ ہی کیا تھا کہ قبر خود بخود کھل گئی۔ جب میں نے اس میں جھانکا تو اللہ عزوجل کی قدرت کا کرشمہ نظر آیا کہ یہ میرا بچہ اپنی ماں کی گود میں بیٹھا کھیل رہا تھا، جب میں قبر میں اترا تو کسی ندا دینے والے نے ندا دی ” تو نے جو امانت اللہ عزوجل کے پاس رکھی تھی وہ تجھے واپس کی جاتی ہے، جا ! اپنے بچے کو لے جا، اگر تو اس کی ماں کو بھی اللہ عزوجل کے سپرد کر جاتاتو اسے بھی صحیح و سلامت پاتا۔” پس میں نے اپنے بچے کو اٹھایا اور قبر سے باہرنکالا، جیسے ہی میں قبر سے باہرنکلا تو قبرپہلے کی طرح دوبارہ بند ہوگئی۔
یہاں یہ بات یاد رہے کہ جان ومال کی حفاظت کے ظاہری اسباب اختیار کرنا اللہ تعالیٰ کی حفاظت پر بھروسہ کرنے کے خلاف نہیں ۔ کیونکہ توکل نام ہی اسی چیز کا ہے کہ اسباب اختیار کرکے نتیجہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیا جائے، لہذا جن لوگوں نے اپنی جان ومال کی حفاظت کے لئے سیکیورٹی گارڈز رکھے یا دیگر اسباب اختیار کئے تو ان کے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ انہیں اللہ تعالیٰ کی حفاظت پر بھروسہ نہیں ۔ " [1]
[1] ابو صالح محمد قاسم القادری:صرا ط الجنان۔