کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 152
نہیں ، ہوسکتے اور جب وہ بھی اللہ تعالیٰ ہی کے محتاج ہیں اور اسی پر بھروسہ و اعتماد رکھتے ہیں اور وہ بھی اپنے قول وفعل سے یہی سکھا اور بتا رہے ہیں کہ حاجت روامشکل کشاہرکسی کا اللہ پاک ہی ہے تو اور کون ایسا ہوسکتا ہے جس کو حاجت رواومشکل کشا قراردیاج اس کے ؟ " مخلوق کے مقابلے میں یقیناً اللہ تعالیٰ کی حفاظت ہی سب سے بہت رہے ، اس لئے ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنی جان، مال ، اولاد اور دین و ایمان وغیرہ کی حفاظت سے متعلق حقیقی اعتماد اور بھر وسہ اللہ تعالیٰ پرہی کرے کیونکہ دیگر لوگ حفاظت کے معاملے میں آلات اور اسباب کے محتاج ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ تمام امور اور ہر طرح کے حالات میں اسباب وآلات سے غنی اور بےنیاز ہے اور جن کی حفاظت اللہ تعالیٰ اپنے ذمہ ِ کرم پرلے لے ، ، یا، ، جنہیں اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں دیا جائے ان کی حفاظت سے متعلق دوحیرت انگیزواقعات ملاحظہ ہوں : (1) ۔۔۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنھما فرماتے ہیں : حضور پرنور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب قضاء حاجت کا ارادہ فرماتے تو (آبادی سے کافی) دور تشریف لے جاتے ، ایک دن آپ قضاء حاجت کے لئے تشریف لائے، پھر وضو فرمایا اور ایک موزہ پہن لیاتو اچانک ایک سبز رنگ کا پرندہ آیا اور دوسرے موزے کو لے کر بلند ہوگیا، پھر اس نے موزے کو پھینکا تو اس میں سے ایک سیاہ رنگ کا سانپ نکلا، (یہ دیکھ کر) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ” یہ وہ اعزاز ہے جو اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا فرمایا ہے۔ پھر آپ نے کہا ” اللَّھم انی اعوذبک من شرمن یمشی علی بطنہ ومن شر من یمشی علی رجلین ومن شر من یمشی علی اربع “ اے اللہ ! میں اس کے شر سے تیری پناہ چاہتاہوں جو اپنے پیٹ پر چلتا ہے اور اس کے شر سے تیری پناہ چاہتاہوں جو دوٹانگوں پر چلتا ہے اور اس کے شر سے تیری پناہ چاہتاہوں جو چار ٹانگوں پر چلتا ہے۔ (2) ۔۔۔ حضرت زید بن اسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : میرے والدنے بتایا کہ ایک مرتبہ حضرت عمربن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ لوگوں کے درمیان جلوہ فرما تھے کہ اچانک ہمارے قریب سے ایک شخص گزراجس نے اپنے بچے کو کندھوں پر بٹھا رکھا تھا ۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب ان باپ بیٹے کو دیکھا تو فرمایا ” جتنی مشابہت ان دونوں میں پائی جارہی ہے میں نے آج تک ایسی مشابہت اور کسی میں نہیں دیکھی۔ یہ سن کر اس شخص نے عرض کی : اے