کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 150
بڑھاپے کی وجہ سے سفر نہیں کرسکتے اور ایک ہمارا چھوٹا بھائی ہے جسے والد کی دیکھ بھال کے لیے ہم گھر چھوڑ آئے ہیں ۔ تو عزیز مصر نے کہا کہ اس دفعہ تو میں تمہاری بات کا اعتبار کرکے تمہیں بارہ افراد کا غلہ دے رہا ہوں لیکن آئندہ کے لیے اپنے چھوٹے بھائی کو ساتھ لے کر آئو کیونکہ اس کے لیے سفر نہ کرنے کا کوئی عذر نہیں اور اگر تم بھائی کو ساتھ لے کر نہ آئے جبکہ تمہیں ایک ایک آدمی کے لیے غلے کی ضرورت ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ تم جھوٹ بولتے ہو اور میں جھوٹوں کو ہرگز غلہ دینے کا روادار نہیں ۔ اب اگر ہمیں غلہ لینے کے لیے جانا ہے اور یقینا ہماری ضرورت کا یہی تقاضا ہے تو پھر بن یامین کو ساتھ لے جانا ضروری ہے ورنہ عزیز مصر ہمیں منہ لگانے کے لیے بھی تیار نہ ہوگا۔ اس لیے آپ ( علیہ السلام) بن یامین کو ہمارے ساتھ بھیجئے، ہم وعدہ کرتے ہیں کہ ہم ہر طرح اس کی حفاظت کریں گے۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے ان کا مطالبہ سن کر فرمایا کہ اگر میں تمہارے وعدے پر اعتماد کرکے اسے تمہارے ساتھ بھیج دوں تو یہ اعتماد ایسا ہی ہوگا جیسا اس سے پہلے میں یوسف ( علیہ السلام) کے بارے میں اعتماد کرکے ایک خطرناک غلطی کرچکا ہوں ۔ معلوم ہوتا ہے کچھ دیر رک کر فرمایا کہ اگر حالات کا جبر ایسا ہی ہے کہ بن یامین کو ضرور بھیجا جائے تو پھر میں اسے تمہارے اعتماد پر نہیں بھیجوں گا بلکہ اس یقین کے ساتھ بھیجوں گا کہ اللہ تعالیٰ ہی حفاظت کرنے والا ہے، اس کی ذات نہایت رحیم و کریم ہے۔ پہلے ایک زخم اگر مجھے پہنچ چکا ہے تو اب انشاء اللہ تعالیٰ مزید کسی آزمائش میں وہ مجھے مبتلا نہیں فرمائے گا اور میری حفاظت کرے گا۔" [1] ﴿قَالَ هَلْ اٰمَنُكُمْ عَلَيْهِ اِلَّا كَمَآ اَمِنْتُكُمْ عَلٰٓي اَخِيْهِ مِنْ قَبْلُ ۭ فَاللّٰهُ خَيْرٌ حٰفِظًا وَّهُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِيْنَ ﴾ 12 اس نے کہا میں اس پر اس کے سوا تمہارا کیا اعتبار کروں جس طرح میں نے اس کے بھائی پر اس سے پہلے تمہارا اعتبار کیا، سو اللہ بہتر حفاظت کرنے والا ہے اور وہ سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔
[1] ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی : روح القرآن۔